عنوان: حضرت عثمان غنیؓ کا مسجد حرام کے لیے گھر خریدنے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق (13436-No)

سوال: آپ ﷺ نے مکہ معظمہ میں کسی سے فرمایا کہ اپنا گھرے میرے ہاتھ بیچ ڈال کہ مسجدِ حرام میں زیادت فرماؤں اورتیرے لئے جنت میں مکان کا ضامن ہوں۔ اس نے عذر کیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تو انکار کیا۔ عثمان غنیؓ کو خبر ہوئی، یہ شخص زمانہ جاہلیت میں ان کا دوست تھا، اس سے باصرارِ تمام دس ہزار اشرفی دے کر خریدلیا، پھر حضور اقدس ﷺ سے عرض کی کہ حضور! اب وہ گھر میرا ہے، کیا حضور مجھ سے ایک مکان بہشت کے عوض لیتے ہیں جس کے حضور میرے لئے ضامن ہوجائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! حضور نے ان سے وہ مکان لے کر جنت میں ان کے لئے ایک مکان کی ضمانت فرمائی اور مسلمانوں کو اس معاملہ پر گواہ کرلیا۔ احمد الحاکمی فی فضائل عثمان عن سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ احمد حاکمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فضائل میں سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ مفتی صاحب! کیا یہ حدیثِ مبارکہ صحیح ہے؟

جواب: سوال میں ذکرکردہ واقعہ ایک طویل حدیث میں وارد ہوا ہے، یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ کمزور ہے، لیکن چونکہ اس کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، اس لیے اس کو بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
ذیل میں مکمل حدیث کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:
مہلب ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ کے پاس آیا تو ایک آدمی جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے والوں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے والوں میں سے تھا، وہ کہنے لگا: اے ابوالفضل! مجھے بتائیے کہ کیا عثمان (رضی اللہ عنہ) بیعتِ رضوان اور بیعت فتح دونوں میں شریک ہوئے تھے؟ سالم نے کہا: نہیں،(اس پر) اس آدمی نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور کھڑا ہو کر چادرجھاڑتا ہوا باہر نکل گیا، جب وہ باہر نکلا تو سالم کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے کہا: بخدا! میرے خیال میں آپ اس آدمی کے معاملے کو نہیں جانتے۔ انہوں نے کہا: جی بالکل ایسا ہے، لیکن اس آدمی کا معاملہ کیا ہے؟ لوگ کہنے لگے: وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ تو اس کے پیچھے پیغام بھیجا، جب وہ آدمی ان کے پاس آیا، انہوں نے کہا: اے اللہ کے نیک بندے! آپ نے مجھ سے سوال پوچھا تھا کہ کیا عثمان (رضی اللہ عنہ) بیعتِ رضوان اور بیعت فتح دونوں میں شریک ہوئے تھے؟ میں نے کہا: نہیں! تو تم نے تکبیر کہی اورخوش ہو کر باہر نکل گئے، شاید کہ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے والوں سے ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے والوں میں سے ہو؟ اس آدمی نے کہا: جی ہاں! میں اسی جماعت سے ہوں۔ حضرت سالم نے کہا: میری بات سنو اور سمجھو، پھر مجھے بتاؤ، بلاشبہ جب رسول اللہ ﷺ نے درخت کے نیچے بیعت لی تھی تو عثمان کو سریہ میں بھیجا تھا اور وہ اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنوں کی ضرورت پوری کرنے میں مصروف تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سنو! یقیناً میرا دایاں ہاتھ میرا ہی ہے اور میرا بایاں ہاتھ عثمان کا ہے، پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھا اور دوسری بیعت (بیعتِ رضوان) میں عثمان کا معاملہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو علی کے پاس بھیجا تھا اورعلی رضی اللہ عنہ ان دنوں یمن کے امیر تھے تو اس وقت بھی آپ ﷺ نے ان کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ فرمایا۔ پھر عثمانؓ کی خصوصیت (یہ بھی )ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ معظمہ میں کسی سے فرمایا: ’’مجھے اپنا گھر بیچ دو، میں اسے مسجد کعبہ میں شامل کر دوں گا اور تیرے لیے جنت میں مکان کا ضامن ہوں گا"۔ اس نے کہا: خدا کی قسم میرے پاس اس کے علاوہ کوئی گھر نہیں ہے، اگر میں نے اپنا گھر آپ کو بیچ دیا تو مکہ میں میرے اور میرے بچوں کے رہنے کی کوئی جگہ نہ رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! مجھے اپنا گھر بیچ دو اور میں اسے مسجد کعبہ میں شامل کر دوں گا اور تیرے لیے جنت میں مکان کا ضامن ہوں گا"۔ اس آدمی نے کہا: خدا کی قسم مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں۔ عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر ہوئی اور وہ آدمی زمانہ جاہلیت میں عثمان کا جاننے والا اور دوست تھا، چنانچہ آپ اس کے پاس آئے اور کہا: اے فلاں! میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے آپ کے گھر بیچنے کی خواہش کی تھی کہ اسے مسجد کعبہ میں شامل کردیں اور جنت میں تمہارے لیے گھر کی ضمانت بھی دے رہے ہیں، لیکن تم نے ایسا کرنے سے انکار کیا؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے انکار کر دیا، عثمانؓ اس سے مسلسل اصرار کرتے رہے اور اسے آمادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ دس ہزار اشرفی دے کر (اس کا گھر) خرید لیا، پھر حضور اقدس ﷺ سے آکر عرض کی: یارسول اللہﷺ! میں نے سنا ہے کہ آپ نے فلاں کے گھر کو خرید کر کعبہ میں شامل کرنے کی خواہش کی تھی اور بدلے میں اسے جنت میں گھر کی ضمانت دی ہے، اب وہ گھر میرا ہے، کیا آپ مجھ سے یہ مکان جنت میں گھر کی ضمانت کے بدلے لیتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے ان سے وہ مکان لے کر جنت میں ان کے لیے ایک مکان کی ضمانت دی اور مسلمانوں کو اس معاملہ پر گواہ بنا لیا، پھر ان کے (کارناموں میں) جیش العسرۃ کے لیے ساز و سامان مہیا کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک لڑنے کی تیاری کی تو آپ ﷺ کو اس جیسی فاقہ کشی، بھوک و پیاس، ساز و سامان کی کمی کسی بھی غزوے میں پیش نہیں آئی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ کے پاس اس کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اناج، کھانا، سالن اور جو بھی چیز رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو چاہیے تھی، خریدی اور اونٹوں کا ایک قافلہ تیار کیا، پھر سوار اور سواری (دونوں) کا سامان آپ ﷺ کی جانب بھیج دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے (اونٹوں کے قافلے کو ) اور ان پر لدے کھانے، اناج اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی ضرورت کی چیزوں کو دیکھا تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہو گیا ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ آپ ﷺ نے یہ دعا تین مرتبہ کی، پھر فرمایا: اے لوگو! عثمان کے لیے دعا کرو، چنانچہ تمام لوگوں نے اکٹھے مل کر نہایت خشوع سے ان کے لیے دعا کی اور نبیﷺ بھی ان کے ہمراہ ( دعا کر رہے) تھے۔ پھر سید نا عثمان رضی اللہ کی یہ فضیلت ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی شادی اپنی صاحبزادی سے کر دی، پھر وہ فوت ہو گئیں تو عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اے عمر! میں رشتہ مانگنے آیا ہوں، آپ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن لی اور فرمایا: اے عمر! عثمان تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا ہے، تم (اس طرح کرو کہ) اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو اور میں عثمان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دوں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ کی بیٹی (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) سے شادی کرلی اور اپنی صاحبزادی کی شادی سیدنا عثمانؓ سے کر دی۔ یہ تھی حضرت عثمان رضی اللہ کی شان۔
تخریج الحدیث:
سوال میں ذکرکردہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے:
۱۔اس روایت کو امام احمد (م241ھ) نے ’’فضائل الصحابة‘‘ (ص:483، رقم الحدیث:784، ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔حافظ ابوعبدالرحمن عبداللہ بن احمد (م290ھ) نے’’فضائل عثمان بن عفان رضي الله عنه‘‘ (ص:122، رقم الحدیث:76، ط: دار ماجد عسیری) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔علامہ محب الدین طبری (م694ھ) نے ’’الرياض النضرة في مناقب العشرة‘‘ (22/3، ط: دارالکتب العلمیة) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
۱) اس روایت کی سند میں ’’سالم بن عبداللہ بن عمر‘‘ سے نقل کرنے والے راوی ’’الْمُهَلَّب ابوعبد اللہ‘‘ ہیں۔ امام ’’ابن ابی حاتم (م327ھ) نے’’ الجرح والتعديل‘‘ (370/8، الرقم:14999، ط: دار إحیاء التراث العربی) میں مختصر تذکرہ کرکے سکوت اختیار کیا ہے۔ ’’الْمُهَلَّب ابو عبد اللہ‘‘ کے علاوہ باقی روات ثقہ ہیں۔
۲) اس روایت کو نقل کرنے والے امام احمد، ان کے بیٹے حافظ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن احمد اور علامہ محب الدین طبری رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر امام ہیں، ان ائمہ کرام کا اس روایت کو بغیر نقد کے نقل کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اس روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
۳) اس روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں اس طرح کی روایت قابل قبول ہے۔
خلاصۂ کلام:
سوال میں ذکر کردہ روایت کو باوجود کمزور ہونے کے امام احمد وغیرہ جیسے جلیل القدر ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نقل کرنے اور فضائل کے باب سے تعلق ہونے کی وجہ سے بیان کرنے کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل: (رقم الحدیث: 784، ص: 483، ط: مؤسسة الرسالة)

حدثنا عبد الله قال: حدثني أبي، قثنا هاشم بن القاسم، قثنا عبد الحميد يعني ابن بهرام، قال: حدثني المهلب أبو عبد الله، أنه دخل على سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب، وكان الرجل ممن يحمد علي بن أبي طالب ويذم عثمان، فقال الرجل: يا أبا الفضل، ألا تخبرني هل شهد عثمان البيعتين كلتيهما: بيعة الرضوان وبيعة الفتح؟ فقال سالم: لا، فكبر الرجل وقام ونفض رداءه وخرج منطلقا، فلما أن خرج قال له جلساؤه: والله ما أراك تدري ما أمر الرجل، قال: أجل، وما أمره؟ قالوا: فإنه ممن يحمد عليا ويذم عثمان، فقال: علي بالرجل، فأرسل إليه، فلما أتاه قال: يا عبد الله الصالح، إنك سألتني: هل شهد عثمان البيعتين كلتيهما: بيعة الرضوان وبيعة الفتح، فقلت: لا، فكبرت وخرجت شامتا، فلعلك ممن يحمد عليا ويذم عثمان، فقال: أجل والله إني لمنهم، قال: فاسمع مني وافهم، ثم ارو علي، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بايع الناس تحت الشجرة كان بعث عثمان في سرية، وكان في حاجة الله وحاجة رسوله وحاجة المؤمنين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا إن يميني يدي، وشمالي يد عثمان» ، فضرب شماله على يمينه فقال: «هذه يد عثمان، وإني قد بايعت له» ، ثم كان من شأن عثمان في البيعة الثانية أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث عثمان إلى علي، وكان أمير اليمن، فصنع به مثل ذلك، ثم كان من شأن عثمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل من أهل مكة: «يا فلان، ‌ألا ‌تبيعني ‌دارك ‌أزيدها ‌في ‌مسجد ‌الكعبة ‌ببيت ‌أضمنه ‌لك ‌في ‌الجنة؟» فقال له الرجل: يا رسول الله، والله ما لي بيت غيره، فإن أنا بعتك داري لا يؤويني وولدي بمكة شيء، قال: «ألا بل بعني دارك أزيدها في مسجد الكعبة ببيت أضمنه لك في الجنة» ، فقال الرجل: والله ما لي في ذلك حاجة ولا أريده، فبلغ ذلك عثمان، وكان الرجل ندمانا لعثمان في الجاهلية وصديقا، فأتاه فقال: يا فلان، بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أراد منك دارك ليزيدها في مسجد الكعبة ببيت يضمنه لك في الجنة فأبيت عليه؟ قال: أجل، قد أبيت، فلم يزل عثمان يراوده حتى اشترى منه داره بعشرة آلاف دينار، ثم أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، بلغني أنك أردت من فلان داره لتزيدها في مسجد الكعبة ببيت تضمنه له في الجنة، وإنما هي داري فهل أنت آخذها مني ببيت تضمنه لي في الجنة؟ قال: «نعم» ، فأخذها منه وضمن له بيتا في الجنة، وأشهد له على ذلك المؤمنين، ثم كان من جهازه جيش العسرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا غزوة تبوك، فلم يلق في غزوة من غزواته ما لقي فيها من المخمصة والظمأ وقلة الظهر والمجاعات، فبلغ ذلك عثمان فاشترى قوتا وطعاما وأدما وما يصلح رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، فجهز إليه عيرا، فحمل على الحامل والمحمول، وسرحها إليه، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع ما عليها من الطعام والأدم وما يصلح رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه يلوي بهما إلى السماء: «اللهم رضيت عن عثمان فارض عنه» ثلاث مرات، ثم قال: «يا أيها الناس، ادعوا لعثمان» ، فدعا له الناس جميعا مجتهدين ونبيهم صلى الله عليه وسلم معهم، ثم كان من شأن عثمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان زوجه ابنته فماتت، فجاء عثمان إلى عمر، وهو عند رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقال: يا عمر إني خاطب فزوجني بنتك، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا عمر، خطب إليك عثمان ابنتك، زوجني ابنتك وأنا أزوجه ابنتي» ، فتزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنة عمر، وزوجه ابنته، فهذا ما كان من شأن عثمان.

و هذا الحديث قدأورده عبدالله بن أحمد في ’’فضائل عثمان بن عفان‘‘(122)(76)و و محب الدين الطبري في ’’الرياض النضرة‘‘(22/3).
دراسة إسناد هذه الرواية:
1۔ مهلب أبو عبد الله
ذكره الإمام ابن أبي حاتم في’’الجرح والتعديل‘‘(370/8)(1691) وسكت عنه وقال:
مهلب أبو عبد الله روى عن سالم بن عبد الله بن عمر (1029 ك) روى عنه عبد الحميد بن بهرام.
2۔ عبد الحميد بن بهرام
وثقه ابن المديني، وابن معين، وأحمد، وأبو داود، وابن حبان، وابن شاهين كمافي ’’تاريخ ابن معين‘‘(375/4)(4851) و’’تاريخ أسماء الثقات‘‘لابن شاهين(160)(913)و ’’الثقات للعجلي‘‘(69/2)(1008)قال ابن عدي في ’’الكامل‘‘(8/7) ولعبد الحميد بن بهرام غير ما ذكرت من الحديث، وهو في نفسه لا بأس به وإنما عابوا عليه كثرة رواياته عن شهر بن حوشب وشهر ضعيف جدا وذكره الذهبي في ’’ميزان‘‘(538/2)(4776)وقال:وثقه يحيى بن معين، وأبو داود [الطيالسي]وقال أبو حاتم: أحاديثه عن شهر صحاح.
وقال أيضا: لا يحتج به۔وقال ابن حجرالعسقلاني في ’’تقريب‘‘(333)(3753) صدوق من السادسة.
3۔ إبو النضر هاشم بن القاسم
وثقه ابن معين، وابن المديني، وابن سعد، وأبو حاتم كمافي ’’تاريخ ابن معين‘‘(ص 225)(852).و’’الجرح والتعديل’’ (9/ 105)(446)’’الطبقات الكبرى‘‘ (9/ 337)(4329)وذكره ابن عدي في ’’الكامل‘‘(418/8)(2031)وقال: وهاشم بن القاسم لم أذكر له شيئا من مسنده لأني لم أر له حديثا منكرا فأذكره وقد روى عنه الأئمة وعندي لا بأس به ۔وقال أحمدبن حنبل: أبو النضر من متثبتي بغداد كمافي ’’تهذيب الكمال‘‘(30/134)(6540).

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 223 Dec 17, 2023
hazrat usman e ghani razi allah anhu ka masjid e haram ke liye ghar kharidne se mutaliq aik riwayat ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.