عنوان: شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اور یتیم بچوں کے نفقہ کا شرعی حکم(5185-No)

سوال: مفتی صاحب ! بیوہ عورت اور اس کے بچوں کی کفالت کس کی ذمہ داری ہے؟ دو بیٹوں میں سے ایک کی عمر 23 اور دوسرے کی17 سال ہے، جبکہ دو بیٹیوں میں سے ایک کی عمر 20 اور دوسری کی 11 سال ہے۔

جواب: صورت مسئولہ میں بیوہ اور بالغ لڑکے اپنا خرچہ خود برداشت کریں گے، جس کیلیے کوئی بھی جائز ممکنہ صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر نابالغ بچی کے پاس اتنی رقم ہے، جس سے وہ اپنا خرچہ برداشت کرسکتی ہے تو اسی کے رقم سے اس پر خرچ کیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے تو اس کا خرچہ اس کی ماں اور دادا کے ذمہ ہوگا، جس میں ایک تہائی ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہے۔
اگر بالغ لڑکی کے پاس اتنی رقم ہے، جس سے وہ اپنا خرچہ برداشت کرسکتی ہے تو وہ اپنا خرچہ خود برداشت کرے گی، اور اگر وہ اپنا خرچہ برداشت نہیں کرسکتی اور حلال طریقے سے روزی کمانے سے بھی عاجز ہے تو ایسی صورت میں اس کے خرچے کا ذمہ بھی سابقہ تفصیل کے مطابق ماں اور دادا پر ہوگا۔
واضح رہے کہ نابالغ بچی اور بالغ لڑکی کے خرچے کی ذمہ داری ماں اور دادا پر اس وقت لازم ہے، جب اہل قرابت، رشتہ داروں یا کوئی اور ان کا خرچہ برداشت کرنے کیلیے تیار نہ ہو، اگر کوئی ان کے خرچ کی ذمہ داری تبرعاً لے لیتا ہے تو پھر ماں اور دادا پر خرچ لازم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (217/4- 218، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله لا الموت والمعصية) أي لا تجب النفقة لمعتدة الموت ولا لمعتدة وقعت الفرقة بينها وبين زوجها بمعصية من جهتها كالردة وتقبيل ابن الزوج أما المتوفى عنها زوجها فلأن احتباسها ليس لحق الزوج، بل لحق الشرع فإن التربص عبادة منها ألا ترى أن معنى التعريف عن براءة الرحم ليس بمراعى فيه حتى لا يشترط فيه الحيض فلا تجب نفقتها عليه؛ ولأن النفقة تجب شيئا فشيئا ولا ملك له بعد الموت فلا يمكن إيجابها في ملك الورثة....
قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها.

و فیه ایضا: (228/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرا) .....وقيد بالفقر؛ لأن الغني نفقته على نفسه وقيدنا بالعجز عن الكسب وهو بالأنوثة مطلقا وبالزمانة والعمى ونحوها في الذكر فنفقة المرأة الصحيحة الفقيرة على محرمها فلا يعتبر في الأنثى إلا الفقر.

الفتاوی الخانیة: (449/1، ط: مکتبة حقانیة)
صغیر مات ابوہ، ولہ ام وجد (اب الاب) کانت نفقتہ علیہما اثلاثا : ثلث علی الام والثلثان علی الجد۔

و فیها ایضا: (450/1، ط: مکتبة حقانیة)
رجل مات وترک ولدا صغیرا وابا کانت نفقة الصغیر علی الجد۔ فان کانت للصغیر ام موسرة وجد موسر کانت نفقة الصغیر علی الجد والام اثلاثا فی ظاھر الروایة اعتبارا بالمیراث۔

الفتاوی التاتارخانیة: (164/4، ط: قدیمی)
وفی الخانیة : المعتدة عن وفاة تکون نفقتھا فی مالھا۔ وفی الزاد : واختلف السلف فیما اذا کانت حاملا والصحیح انہ لا نفقة لھا۔

معارف القرآن: (582/1، ط: ادارۃ المعارف)
اگر یتیم بچے کی ماں اور دادا زندہ ہیں تو یہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی، اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا، یعنی ایک تہائی خرچہ ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2549 Sep 15, 2020
shouhar ki wafaat kay baad bewah or yateem bacho kay nafqay ka shar'ee hukum, Shariah Ruling on alimony of widow and orphans after the death of the husband

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.