عنوان: اگر رشتہ دار قطع تعلقی کریں، تو ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟(8719-No)

سوال:
میری والدہ کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، والد صاحب نے بڑی بہن کو ہمیشہ ترجیح دی ہے، میری بہن کے کہنے پر مجھ سے بات نہیں کرتے ہیں، میری بہن نے میرے شوہر سے بدتمیزی کی، شوہر کے کہنے کی وجہ سے میں نے بہن سے بات کرنا چھوڑ دی ہے، بہن کے مالی حالات بہت اچھے ہیں، جبکہ میرے اتنے اچھے نہیں ہیں، والد صاحب کو خرچہ بھیجوں، تو مان جاتے ہیں، اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں بہت پریشان ہوں۔

جواب: واضح رہے کہ قرآن كريم اور احادیث مباركہ میں صلہ رحمى (رشتہ ناتا جوڑنے) کی بہت فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے، اور قطع رحمى (رشتہ ناتا توڑنے) سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے:
وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ (سورة النساء:1)
ترجمہ: اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی (سورۃ النساء: 36)
ترجمہ: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
ترجمہ:
صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ (رشتہ) جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے، تو وہ اسے جوڑ دے۔
(صحيح البخاري: حدیث نمبر: (5991) )
ايک اور ارشاد نبوى صلى الله عليه وسلم ہے:
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن ابی الحسین رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت والوں کے بہترین اخلاق نہ بتاؤں؟: "وہ یہ کہ تم اس سے رشتہ جوڑو جو تمہارے ساتھ تعلق توڑے اور جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور تم پر جو ظلم کرے اس کو معاف کرو۔
ایک اور ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے:
ترجمہ:
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی (تم یہ طرز عمل اختیار مت کرو) کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے، تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہمارے اوپر ظلم کریں گے، تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں، تو تم بھی احسان کرو اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔
(سنن الترمذي ت بشار :حدیث نمبر: (2007)
مندرجہ بالا آیات و احادیثِ مبارکہ سے ہمیں یہ ہدایت ملتى ہے کہ جب کوئى رشتہ دار قطع رحمى کرے، تو اس کے برے سلوک کے باوجود صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، اگر وہ ہی خود بول چال بند کر دیں، تو انہیں منایا جائے۔ یقیناً ايسا كرنا بڑے حوصلے کى بات ہے، اور اس کے فضائل بھى لاتعداد ہیں، لہذا اپنے ان اعمال کا اجر الله تعالى سے ملنے کایقین رکھنا چاہیے۔
ہاں! اگر رشتہ داروں نے اس قدر ستایا ہو کہ اب ان سے راہ و رسم بڑھانے سے بجائے محبت پیدا ہونے کے الٹا عداوت پیدا ہو سکتی ہو، اور جھگڑوں کا اندیشہ ہو، تو کم از کم درجے میں ان کے ساتھ سلام و کلام اور بات چیت کی حد تک تعلقات استوار رکھے جائیں۔
لہذا آپ اپنی طرف سے اپنے والد صاحب اور ہمشیرہ کے ساتھ صلہ رحمى کا بھر پور اہتمام کرتى رہیں، اپنى طرف سے کوئى ایسى بات نہ کریں، جس سے اختلافات میں اضافہ ہو، نیز اگر اندیشہ ہو کہ ان کے قریب رہنے سے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے، تو اس بات كى بھى گنجائش ہے کہ ان سے دور رہیں، لیکن گاہے بگاہے ان کے پاس جاتی رہیں گی، تو امید ہے کہ آپ کو قطع رحمى کا گناہ نہ ہوگا۔
اس بات كى تائيد حضرت عمر فاروق رضى الله عنه کے اس ارشاد سے بھى ملتى ہے، جسے امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب "احیاء علوم الدين" میں نقل فرمايا ہے:
ترجمہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال (گورنروں) کو خط لکھا کہ اقارب (رشتہ داروں) کو حکم کریں کہ آپس میں ملاقات کیا کریں، لیکن ایک دوسرے کے پڑوس میں نہ رہا کریں اور یہ حکم نامہ اس لئے جاری فرمایا تھا کہ ایک ساتھ رہنے سے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے، جو بسا اوقات نفرت و قطع رحمی کا سبب بن جاتا ہے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (باب ليس الواصل بالمكافئ، رقم الحديث: 5991)
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن الأعمش، والحسن بن عمرو، وفطر، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو: - قال سفيان: لم يرفعه الأعمش إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ورفعه حسن وفطر - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها».

جامع معمر بن راشد: (باب صلة الرحم، رقم الحدیث: 20237)
أخبرنا معمر، عن أبي إسحاق الهمداني، عن ابن أبي حسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا أدلكم على خير أخلاق أهل الدنيا والآخرة: أن تصل من قطعك، وتعطي من حرمك، وتعفو عمن ظلمك».

سنن الترمذي:(باب ما جاء في الإحسان و العفو، رقم الحديث: 2007)
حدثنا أبو هشام الرفاعي محمد بن يزيد، قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن الوليد بن عبد الله بن جميع، عن أبي الطفيل، عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تكونوا إمعة، تقولون: إن أحسن الناس أحسنا، وإن ظلموا ظلمنا، ولكن وطنوا أنفسكم، إن أحسن الناس أن تحسنوا، وإن أساءوا فلا تظلموا".
وقال: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.

إحياء علوم الدين: (216/2)
"وروى أن عمر رضي الله عنه كتب إلى عماله مروا الأقارب أن يتزاوروا ولا يتجاوروا وإنما قال ذلك لأن التجاور يورث التزاحم على الحقوق وربما يورث الوحشة وقطيعة الرحم حُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَالْوَلَدِ".

والله تعالى اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 1045 Nov 06, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.