عنوان: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہبند باندھنا ثابت ہے(142-No)

سوال: تہبند پہننا سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟

جواب: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تہبند پہننے کا تھا۔
واضح رہے کہ لغت میں سنت بمعنیٰ طریقہ کے آتا ہے، عام ہے کہ وہ طریقہ اچھا ہو یا برا۔
مراقی الفلاح میں ہے:
والسنۃ لغۃ: الطریقۃ ولوسیئۃ
(ص، ۳۸۔ ۳۵، دارالایمان بیروت)
اوراصطلاح شرع میں سنت کی تعریف یہ ہے کہ جس کو حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے کیا ہو یا آپ کے صحابہ نے کیا ہو۔
والسنۃ عند الحنفیۃ مافعلہ أو واحد من أصحابہ اھ۔ (طحطاوي علی المراقي)
عام طور پر فقہائے کرام نے سنن کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں : (۱) سننِ ہدیٰ/تعبُّدیہ۔ (۲) سننِ عادیہ/زائدہ۔
(۱) سننِ ہدیٰ/تعبُّدیہ: جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عبادت کے طور پر کیا ہو، یہ مکملات دین میں سے ہوتی ہیں، یہ سننِ مؤکدہ قریب بواجب ہوتی ہیں ، جیسے: نماز با جماعت، اذان، اقامت، سننِ رواتب وغیرہ، شریعت میں اِن کو کرنے کی تاکید آئی ہے، ان کا حکم یہ ہے کہ ان کا چھوڑنا گمراہی اور قابلِ ملامت ہے۔
(سنن کی ایک قسم غیر مؤکدہ ہے، جس پر مواظبت وہمیشگی ثابت نہ ہو، اس کا تارک عاصی نہیں ہے، ہاں ! عامل ماجور ہے، جیسا کہ عصر کی سنتِ قبلیہ)
(۲) سننِ عادیہ/زائدہ: جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عبادت نہ کیا ہو، بلکہ اپنی عادتِ مبارکہ کے طور پر آپ کے جسمِ اطہر سے صادر ہوئی ہوں، جیسے اُونٹ پرسواری کرنا، تہبند باندھنا، منقش یمنی شال استعمال فرمانا، مخصوص وضع کا لباس زیب تن فرمانا، عمامہ باندھنا، نشست وبرخواست کا مخصوص انداز وغیرہ وغیرہ، یہ سب چیزیں سننِ عادیہ میں سے ہیں، جسے شرعی اصطلاح میں سننِ زوائد بھی کہا جاتا ہے، یہ مستحب کے درجے میں ہیں، ان کے کرنے میں ثواب ہے اور نہ کرنے میں کوئی ملامت اور عتاب نہیں ہے۔ ہاں ! ان کا بجالانا اَولیٰ اور افضل ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت ہے۔
یا یوں کہا جائے کہ جن سنتوں کا تعلق عبادات جیسے: نماز، روزہ، اذان، اقامت سے ہوں، وہ سننِ ہدیٰ ہیں۔ اور جن کا تعلق مباحات جیسے: چلنے، پھرنے، کھانے پینے اور پہننے سے ہے، وہ سننِ عادیہ ہیں۔
فائدہ : عادات میں مزاج وغیرہ کے لحاظ کرنے کا اختیار ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض عادات ایسی ہیں، جن کو ہم برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے شریعت نے عادتِ نبویہ کا اتباع واجب نہیں کیا۔ ہاں ! اگر کسی کو ہمت ہو اور عادت پر عمل کرنا نصیب ہوجائے تو اس کی فضیلت میں شک نہیں، مگر اس کو دوسروں پر طعن کرنے کا بھی حق نہیں۔
تنبیہ : زوائد کے لفظ سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان اُمور کا بجالانا عبادت میں شامل نہیں، ایسا ہرگز نہیں ! یہ بھی عبادت میں داخل ہیں، کیوں کہ فی نفسہٖ سنت کا مفہوم ہی عبادت ہے(ہاں ! البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عبادت انجام نہیں دیا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسند اسحاق بن راهويه: (627/3، ط: مکتبۃ الایمان)
عن عائشة، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي في إزار ورداء فرفع يديه فقال: «اللهم إنما أنا بشر، فأيما عبد من عبادك غضبت عليه أو آذيته فلا تعاقبني فيه»

الجوھرۃ النیرۃ: (5/1، ط: المطبعۃ الخیریۃ)
السنة في اللغة هي الطريقة سواء كانت مرضية أو غير مرضية «قال - عليه الصلاة والسلام - من سن سنة حسنة كان له ثوابها وثواب من عمل بها إلى يوم القيامة ومن سن سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها إلى يوم القيامة» وهي في الشرع عبارة عما واظب عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - أو أحد من أصحابه ويؤجر العبد على إتيانها ويلام على تركها

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (265/25، ط: دار السلاسل)
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
أ - سنة الهدى:
وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.
ب - سنن الزوائد:
وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1284 Dec 26, 2018
Nabi (S.A.W.S) se/say tehband/tahband baandhna saabit hay , Is it proven that the Prophet (S.A.W) used to wear dhoti

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.