سوال:
ایک شخص نے والد کے انتقال کے بعد والد کا پلاٹ اپنے نام کروا کر ستر لاکھ میں فروخت کردیا ہے، اور وہ ستر لاکھ روپے ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، لیکن اس پلاٹ کی ویلیو ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے، تو اس شخص کو ستر لاکھ روپے ورثاء میں تقسیم کرنے ہوں گے یا ایک کروڑ روپے تقسیم کرنا ہوں گے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
تنقیح:
محترم ! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا آپ کے والد کے ورثاء بیع کے اس معاملے پر راضی ہیں یا نہیں؟
اور یہ بھی بتائیں کہ جس وقت پلاٹ فروخت کیا گیا تھا، اس کی مارکیٹ ویلیو کیا تھی؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
محترم والد صاحب کی 2 بیویاں تھیں اور دونوں سے اولاد ہیں، دوسری بیوی اور ان کے بچے اس رقم لینے پر راضی نہی ہیں، وہ اپنے حصے کی زمین چاہیتے ہیں، اور پلاٹ کی قیمت اس وقت بھی 70 لاکھ سے زیادہ تھی، رہنمائی فرمادیں۔
جواب: مذکورہ پلاٹ شرکاء کی رضامندی کے بغیر فروخت کیا گیا ہے، لہذا یہ بیع فاسد ہے، فروخت کرنے والے اور خریدنے والے پر شرعاً لازم ہے کہ اس بیع کو فسخ کردے، اور خریدنے والے کو اس کی ادا کردہ رقم واپس کردے، نیز فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مذکورہ پلاٹ کو اپنے والد کے ورثاء میں شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (302/4، ط: سعید)
ولو كانت الدار مشتركةً بينهما، باع أحدهما بيتاً معيناً أو نصيبه من بيت معين، فللآخر أن يبطل البيع۔
الہدایۃ: (کتاب البیوع، 67/3، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و لکل من المتعاقدین فسخہ رفعا للفساد وہذا قبل القبض ظاہر لانہ لم یفد حکمہ فیکون الفسخ امتناعا منہ وکذا بعد القبض۔
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144001200732
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی