سوال:
اگر کوئی شخص کہیں جارہا ہو اور رستے میں موسلا دھار بارش شروع ہوجائے اور اس سے وہ سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ جائے اور اس دوران نماز کا وقت ہوجائے تو کیا بارش میں بھیگنے کی وجہ سے ایسے شخص کا وضو ہوجائے گا اور کیا وہ ان ہی کپڑوں میں نماز ادا کرسکتا ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص بارش میں اس طرح بھیگ جائے کہ اس کے وضو کے فرض اعضاء میں سے کوئی جگہ خشک نہ رہے تو اس کا وضو ہوجائے گا اور وضو کی نیت کرنے کی صورت میں ثواب بھی ملے گا، اور اس سے نماز ادا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کپڑے پاک ہوں، البتہ اگر کپڑے ناپاک ہوں اور بارش سے دھلنے کی وجہ سے غالب گمان ہوجائے کہ نجاست نکل گئی ہوگی تو اس صورت میں بھی کپڑے پاک شمار ہوں گے، اور ان میں نماز ادا کرنا جائز ہوگا، تاہم اگر بارش دھیمی تھی جس سے کپڑے صرف گیلے ہوئے اور ان سے نجاست نہیں نکلی تو اس سے کپڑے پاک نہ ہوں گے اور ان میں نماز ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (332/1، ط: دار الفکر)
ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلا ويخلفه غيره مرارا بالجريان أقوى من الغسل۔۔۔(قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثا۔۔۔قول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة۔۔۔۔فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی