عنوان: ایسی دو بیویوں کے نفقے کا حکم جن میں ایک کی اولاد ہو اور ایک کی نہ ہو۔ (9196-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک صاحب کی دو بیویاں ہیں، پہلی بیوی سے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، جبکہ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے، ان کو ماہانہ خرچ کس حساب سے دیا جائے گا؟ پہلی بیوی کہتی ہے کہ مجھ کو زیادہ خرچ دیا جائے، کیونکہ میرے ساتھ بچے ہیں، ان کی تعلیمی اور دیگر ضروریات کے اخراجات ہیں، مگر دوسری بیوی پہلی بیوی کے خرچہ کے برابر مانگنے کا تقاضا کر رہی ہے۔ ایسے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں، اس پر ان بیویوں کے تمام معاملات میں حسن سلوک اور تمام حقوق (کھانے پینے، رہن سہن اور نفقہ یعنی خرچ وغیرہ)کی ادائیگی میں برابری اور مساوات لازم ہے، حدیث شریف میں آتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"جو شوہر دو بیویوں کے درمیان برابری نہ کرے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوگا کہ اس کا ایک پہلو خشک اور مفلوج ہوگا"۔(سنن ترمذی،حدیث نمبر:1141)
نیز اسی طرح نابالغ اولاد کا خرچ بھی باپ پر لازم ہے اور یہ خرچ بیوی کے نفقے کے علاوہ ہے، لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں مذکورہ شخص کو چاہیے کہ دونوں بیویوں کا نفقہ الگ الگ مقرر کرے اور اس میں دونوں بیویوں کے درمیان برابری کرے، اور اولاد کا نفقہ الگ مقرر کرے تو اس صورت میں جس بیوی کی اولاد ہے ،اگر اس کا خرچ بڑھ جائے، تو یہ بیوی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اضافہ اولاد کی وجہ سے ہوگا، اس پر دوسری بیوی کا اعتراض کرنا عبث اور بے جا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1141، 439/3، ط: مكتبة مصطفى البابي الحلبي)
” عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط.

الدر المختار: (202/3، ط: دار الفکر)
(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب

بذل المجہود: (520/8، ط: مرکز ابی الحسن الندوی)
وهذا الحديث يدل على وجوب العدل على الزوج، إذا كان له أكثر من زوجة ومذهب الحنفية في ذلك: أن الرجل إذا كان عنده أكثر من امرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من: القسم، والنفقة، والكسوة، لا في المودة) والمجامعة؛ فيجب عليه التسوية في المأكول، والمشروب، والملبوس، والسكني، والبيتونة
والأصل فيه قوله عز وجل: «فإن خفتم ألا تميلوا فريدة أي: إن خفتم أن لا تعدلوا في القسم، والنفقة في نكاح المثنى، والثلاث، والرباع، فواحدة، ندب سبحانه وتعالى إلى إنكاح الواحدة عند خوف ترك العدل في الزيادة وإنما يخاف على ترك الواجب، فدل على أن العدل بينهن واجب، وإليه أشار في آخر الآية بقوله: «ذلك أنك ألا تعولوا »، أي لا تجوروا ، والجور حرام، فكان العدل واجباً ضرورة؛ ولأن العدل مأمور به بقوله عز وجل: «إن الله يأمر بالعدل والإحسان »على العموم والإطلاق، إلا ما خص بدليل.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 637 Jan 24, 2022
ese dou / two biwio / wife k / kay nufqe / nafqe ka hokom / hokum jin me / mein aik ki olad / oulad ho or aik ki na ho.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.