سوال:
کیا مدارس کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے کہ اجتماعی قربانی میں حصہ دار کی آمدنی کے ذرائع معلوم کریں؟ یا کسی بھی اجتماعی قربانی والوں کو یہ بات معلوم کرنا لازمی ہے؟
جواب: قربانی کے بڑے جانور میں شرکت کرتے وقت ضروری ہے کہ سب شرکاء کی آمدن حلال ہو، اگر کسی حرام آمدن والے کو شریک کیا گیا اور اس نے اپنے آمدن کی وضاحت کی ہو کہ حرام مال ہے تو سب شرکاء کی قربانی درست نہیں ہوگی، لیکن اگر آمدن کی وضاحت نہیں کی تو دیگر شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ اگر کسی کے بارے معلوم ہوجائے کہ وہ حرام مال سے شرکت کررہا ہے تو اسے شریک نہ کیا جائے اور اگر کسی کی آمدن کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تو بلاوجہ شک وشبہ میں پڑنا اور اس کی تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (304/5، ط: دار الفکر)
" وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".
رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (249/23، ط: دار السلاسل)
والمال الحرام كله خبث لا يطهر، والواجب في المال الحرام رده إلى أصحابه إن أمكن معرفتهم وإلا وجب إخراجه كله عن ملكه على سبيل التخلص منه لا على سبيل التصدق به، وهذا متفق عليه بين أصحاب المذاهب.
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144112200369
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی