عنوان: بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا(3429-No)

سوال: مفتی صاحب ! آج کل یہ بات بہت عام ہے کہ شادی کے بعد لڑکی اپنے نام کے آخر میں اپنے باپ کے نام کے بجائے شوہر کا نام لگا لیتی ہے، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب وضاحت و تفصیل سے درکار ہے۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: عورت کے نام کے ساتھ والدکا نام لگے یا شوہر کا، درحقیقت مقصد اس سے تعارف اور شناخت ہے، اور یہ شناخت ان دو طریقوں سے بھی ہوتی ہے اور ان کے علاوہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن وحدیث میں بعض عورتوں کا تعارف اللہ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
( اِمْرَاَةَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَةَ لُوْطٍ، کَانتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ )(التحریم:10) ترجمہ: یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی۔الخ
حدیث مبارکہ میں ہے: "جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستأذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه زینَبُ، فَقَالَ: أَي الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها".(بخاری و مسلم)
حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زینب جو امراة ابنِ مسعود ہیں، یعنی حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی، پوچھا گیا کون سی زینب؟ جواب دیا گیا کہ امراة ابنِ مسعود، آپ ﷺ نے فرمایا؛ ہاں ! اسے آنے کی اجازت ہے۔
اسی طرح آدمی کی پہچان بعض مرتبہ وَلاء یعنی جس نے غلام کو آزاد کیا ہے، اس سے ہوتی ہے، جیسے: "عَکرَمَہ مولی ابنِ عباس“، کبھی پیشہ کے بیان سے ہوتی ہے، جیسے:"قدوری" وغیرہ، کبھی لقب و کنیت سے ہوتی ہے، جیسے: "ابو محمّد أعمش“، کبھی ماں سے ہوتی ہے، حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے، جیسے "اسماعیل ابنِ علیہ“، وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں، جس سے کوئی شرعی ضابطہ ٹوٹتا ہو، مقصد تعارف اور شناخت ہے، لہذا شادی کے بعد شناخت کے لیے عورت کے نام کے ساتھ والد کا نام رہے یا شوہر کا نام آجائے ، دونوں جائز ہیں، ہمارے برصغیر پاک وہند میں شادی کے بعد عورت کے نام کے ساتھ تعارف کے لیے شوہر کا نام لگایا جاتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
باقی اگرکسی کو یہ شبہ ہوکہ بعض احادیث میں والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس بارے میں وعیدیں بھی آئی ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور شخص کی طرف اپنی نسبت اس طور پر کرنا کہ وہ دوسرا شخص والد سمجھا جائے یا اپنے والد کی نفی کرکے دوسرے کو والد کہنا ممنوع ہے۔ جہاں یہ شبہ نہ ہو تو کسی کی طرف اولاد والی نسبت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی، مثلاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیارا بیٹا کہنا ثابت ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ بیوی کا نام شوہر کی طرف منسوب کرنے میں کسی طرح بھی ولادت کی نسبت نہیں سمجھی جاتی، لہٰذا یہ نسبت حدیث کی ممانعت میں داخل نہیں ہے۔
لهذا تعارف کی غرض سے والد یا شوہر کے ناموں میں سے کوئی بھی نام لگایا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التحریم، الایۃ: 10)
اِمْرَاَةَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَةَ لُوْطٍ، کَانتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِo

صحیح البخاری:
"جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستأذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه زینَبُ، فَقَالَ: أَي الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 419 Jan 23, 2020
Biwi ke sath shohar ka naam lagana, Biwi ka apne naam kay sath, naam kay sath, shohar ka naam, Using of husband's name with own name, Wives adding husbands name at end of own name, Why do women change their names, After marriage, Change of name

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.