عنوان:
دعا کے الفاظ کا شرعا درست ہونا ضروری ہے۔ (3740-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ذیل میں درج باتیں صحیح ہیں یا نہیں؟
ظالم کی بربادی:
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍط حَتّیٰٓ اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَO فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِ الْعٰلَمِیْنَO
خاصیت: اگر ظالموں کی خانہ ویرانی اور ان کی جماعت کی پراگندگی مقصود ہو، تو ان آیتوں کو کسی مذبوح جانور کی پرانی ہڈی پر لکھ کر پھر اس کو باریک کوٹ کر اس کے گھر میں ڈال دے۔
ظالم دشمن کو ہلاک کرنا:
وَالَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہٗ لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖط اُولٰٓئِکَ لَھُمْ سُوْٓئُ الْحِسَابِ لا وَمَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمِہَادُO
اور وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِج اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِO
جو شخص اپنے دشمن کو ہلاک کرنا چاہے، تو مہینہ کی ۲۸ تاریخ کو روزہ رکھے، اگر اتفاق سے ہفتہ کا دن پڑجائے تو بہت خوب ہے، پھر جو کی روٹی پر افطار کرے، پھر آدھی رات کے وقت اٹھ کر جنگل میں جا کر یا خالی گھر کی چھت پر جا کر کندر اور سندرس کی دھونی سلگا کر یہ آیتیں سات مرتبہ پڑھے اور اس کی ہلاکت کے لیے بد دعا کرے، مگر حدِ شرعی سے تجاوز نہ کرے، یعنی جس قدر نقصان پہنچانا اس کو شرعاً جائز ہو، اس سے زیادہ بد دعا نہ کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ وہ ذلیل وخوار ہوگا۔
ظالم کو شہر سے نکالنے کے لیے:
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَO
خاصیت: اگر کسی شریر ظالم کو شہر سے نکالنا ہو، تو ہر روز سات سرخ گھونگچی کو کوئیں میں ڈالتا جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ وہ شخص اس شہر سے جلد چلا جائے گا، اس عمل میں ترک حیوانات لازم ہے، مگر اس کو ناجائز جگہ پر عمل نہ کرے، ورنہ نقصان اٹھائے گا۔
ظالم دشمن کی تباہی کے لیے:
وَّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًاO مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَآئِھِمْط کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْط اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًاO فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًاO اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاO وَاِنَّا لَجَاعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزًاO
دشمن ظالم کی تباہی اور خرابی کے لیے محرم کے اول سنیچر کے روز آفتاب نکلنے سے قبل سات جگہوں سے ایک ایک مٹھی خاک لے: مسجد غیر آباد ، بقعہ غیر آباد، مکان خالی، حمام غیر آباد، پژاوہ غیر آباد، جس مکان میں نمازِ جنازہ ہو، چوراہہ،
اور ہر مٹھی پر سات سات مرتبہ یہ آیتیں پڑھے اور اپنے مطلب کا تصور رکھے، پھر سب خاکیں ملاکر اس کے گھر یا باغ یا شہر میں ڈال دے، سات ہفتہ تک اسی طرح کرے، اذنِ شرعی کی یہاں بھی حاجت ہے۔
ظالم کو تباہ کرنے کیلئے یہ عمل بھی مفید ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِO وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗط بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَO لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَO یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَلا اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَO وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْ اِلٰـہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَھَنَّمَط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَO
متکبر ظالم کے تباہ کرنے کے لیے چار قبروں کی مٹی لے کر ایک مسلمان کی، دوسری یہودی کی، تیسری نصرانی کی، چوتھی مجوسی کی، اور ایک کسی متکبر کی پرانی قبر کی اور ایک کسی ویران گھر کی اور ایک کسی وقف منہدم گھر کی۔
یہ ساتوں مٹیاں لے کر، برتن پر یہ آیت سات سات بار پڑھ کر، کسی مہینے کے آخری بدھ میں وہ مٹیاں ملا کر اس شخص کے گھر میں اوپر سے ڈال دے، پھر تماشا دیکھے۔
ظالم کی ہلاکت کے لیے:
ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِO فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا وَھِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَاز وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍO اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَاج فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِO
جواب: واضح رہے کہ دعاء کی دو قسمیں ہیں:
پہلى قسم: مقيد دعا
وہ دعا جو كسى وقت يا جگہ يا عبادت كے ساتھ خاص ہو يا پھر جس كو شريعت نے تعداد يا فضيلت كے ساتھ مقيد كيا ہو، يا اور كوئى قيد لگائى ہو مثلاً: صبح و شام كے وقت كى دعائيں اور سوتے وقت كى دعائيں اور كھانے كى دعائيں.
پہلی قسم کا حکم:
دعا كى اس قسم ميں کسی قسم کی كمى يا زيادتى نہيں كى جا سكتى، اور كوئى اور دعا ایسی نہيں بنائی جاسكتى كہ وہ سنت ميں ثابت شدہ كے قائم مقام بن سكے۔
دلیل:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلِ : اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ ". قَالَ فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ : اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ قُلْتُ : وَرَسُولِكَ، قَالَ : " لَا، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ۔
(صحيح البخاري ، كِتَابٌ : الْوُضُوءُ ،بَابُ فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ. حدیث نمبر: 247)
ترجمہ:
" براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب تم سونے كے ليے اپنے بستر پر جاؤ تو نماز كے وضو كى طرح وضو كر كے اپنے دائيں پہلو پر ليٹ جاؤ پھر يہ دعا پڑھو: اے اللہ ميں نے اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا، اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديا، اور اپنا چہرہ تيرى طرف پھير ليا تيرى رغبت كرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے، نہ تجھ سے پناہ كى جگہ ہے اور نہ كوئى بھاگ كر مگر تيرى طرف، ميں تيرى كتاب پر ايمان لايا اور تيرے نبى پر ايمان لايا جسے تو نے بھيجا "
اگر تمہيں اس رات موت آجائے تو تم فطرت پر ہو، اور يہ كلمات تمہارے آخرى كلمات ہوں، اس كے بعد كسى سے بات مت كرو، براء بن عازب بيان كرتے ہيں تو ميں نے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے دہرائى اور جب اللھم آمنت بكتابك الذى انزلت پر پہنچا تو ميں نے اس كے بعد رسولك كہہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں كہو و نبيك الذى ارسلت "
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسنون دعاؤں میں اپنی طرف سے کمی بیشی جائز نہیں ہے۔
دوسرى قسم: مطلق دعا
وہ دعائیں، جو اللہ تعالى سے اپنی جملہ ضروريات کے لئے مانگی جائیں۔
دوسری قسم کا حکم:
ان دعاؤں کا سنت سے ثابت ہونا شرط نہيں ہے، بلكہ اتنی بات کافی ہے کہ دعا كے الفاظ شرعاً درست ہوں، لہذا اگر اپنی حاجت کے لئے کوئی دعا مانگی جائے یا کسی بزرگ کی مجرب دعا کو پڑھا جائے تو جائز ہے، بشرطیکہ سنت سمجھ کر نہ پڑھا جائے اور مسنون دعا کی طرح اہتمام نہ کیا جائے۔
خلاصہ کلام:
اتنی بات کافی ہے کہ كہ دعا كے الفاظ شرعاً درست ہوں، لہذا سوال میں ذکر کردہ دعاؤں کے الفاظ قرآنی آیات پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کا پڑھنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتاوی اللجنة الدائمة: (203/24، ط: رئاسة إدارة البحوث العلمية و الإفتاء)
باب الأدعية واسع ، فليدع العبد ربه بما يحتاجه مما لا إثم فيه۔أما الأدعية والأذكار المأثورة : فالأصل فيها التوقيف من جهة الصيغة والعدد ، فينبغي للمسلم أن يراعي ذلك ، ويحافظ عليه ، فلا يزيد في العدد المحدد ، ولا في الصيغة ، ولا ينقص من ذلك ولا يحرف فيه
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Dua, kay, ke, alfaz, ka, sharan, durust, hona, zaruri, zaroori, hay, he,
In Shariah the words of the prayer must be correct