عنوان: بیس رکعت تراویح کا صحیح احادیث اور تابعین کے اقوال سے ثبوت(4357-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا شریعت میں بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کے بارے میں مختلف روایات ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمین کا اس پر اتفاق ہےکہ تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم کے عمل کو صحابہ کرام سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ، لہذا تراویح بیس رکعت ہی پڑھنی چاہئیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیس رکعت تراویح سے متعلق جو روایات منقول ہے ، اسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
1- حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے، اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے، اور امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔
(السنن الکبری للبیھقی ،ج 2 ، ص 698،رقم الحدیث : 4288، ط: دارالکتب العلمیۃ)
مشہور حنفی محقق علامہ محمد بن علی نیموی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ( معتبر ) ہیں، اس حدیث کی سند کو امام نووی نے اپنی کتاب " الخلاصہ" میں، امام ابن العراقی نے "شرح التقریب " میں ، اور امام سیوطی نے " المصابیح" میں صحیح کہا ہیں۔
(التعلیق الحسن علی آثار السنن : ص 246 ، ط: مکتبۃ البشری)
2- امام مالکؒ نے یزید بن رومانؒ سے روایت کیا ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین) حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان المبارک کے مہینے میں تئیس رکعات (تین رکعت وتر سمیت) تراویح پڑھا کرتے تھے۔
(مؤطّا الامام مالك بروايۃ يحيي بن يحيي الليثي ، ص 60 ، رقم الحدیث : 249 ، ط: مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ)
اس حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے، لیکن مرسل روایت جمہور (جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں) کے نزدیک حجت ہے، نیز مرسل روایت کی تائید جب دوسرے صحیح مرسل روایت سے ہوجاتی ہے تو وہ قابل حجت ہوتی ہے، ذیل کی روایت بھی مرسل ہے، لہذا وہ اس کی مؤید ہے۔
3- یحیی ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ،ج 2، ص 163، رقم الحدیث : 7682، ط: مكتبة الرشد)

اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، اور مرسل ہونے کی وجہ سے ماقبل روایت کے لیے مؤید ہے۔
4- حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین! آپ نے ایک ایسی بات کا حکم دیا ہے، جس پرآپ ﷺ کے زمانے میں عمل نہیں رہا ہے (یعنی باجماعت تراویح پڑھنا)، حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں، لیکن یہی بہتر ہے، توحضرت ابی بن کعبؓ نے بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی۔
(الأحاديث المختارة لضياءالدين المقدسي: ج3، ص 367، رقم الحدیث : 1161، ط: دار خضر)
5- امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھتے پایا ہے۔
(جامع الترمذی : ج 3، ص 160، ط: مطبعۃ مصطفى البابي الحلبي – مصر)

حضرات تابعین کے چند مشاہدات بھی ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1- جلیل القدر تابعی حضرت عطاءؒ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ) کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ آثار السنن،ص 247،ط : مکتبۃ البشری)
امام نیموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن (صحیح کی ایک قسم ) ہے۔
2- ابوالخصیبؒ کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ ہمیں تراویح پانچ ترویحےپڑھاتے تھے، جو کہ بیس رکعات بنتی ہیں۔
(السنن للبیھقی بحوالہ آثار السنن، ص 247، ط : مکتبۃ البشری)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔
ان صحیح روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام اور حضرات تابعین کو بیس رکعت تراویح پر جمع فرمایا تھا، اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی اس تعداد کی مخالفت اور تبدیلی بھی ثابت نہیں ہے، لہذا بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین، بلکہ موجود تمام صحابہ کا متفقہ سنت طریقہ ثابت ٹھہرا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صرف دو سال بعد شروع ہوا ہے، لہذا بیس رکعت کا فیصلہ بالکل دور نبوی اور مزاج نبوی کے موافق تھا۔
نیز جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے ، ویسے ہی حضرات خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم بھی دیا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو، اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور (دین میں) نئی چیزوں کی ایجاد سے بچو، کیونکہ دین میں ( اپنی طرف سے ) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابی داود،ج4، ص 200، رقم الحدیث : 4607، ط: المکتبۃ العصریۃ)

ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے پر اتفاق ہے۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 141، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
اگر لوگ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، تو ایسی صورت میں بیس رکعت تراویح پڑھنا افضل ہوگا۔ اسی تعداد پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے، اور یہی تعداد دس اور چالیس رکعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 144، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)

سعودیہ کے مشہور عالم علامہ ابن بازؒ کہتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص بیس رکعات تراویح پڑھتا ہے، جیسا کہ حضرت عمرؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے رمضان کی بعض راتوں میں منقول ہے، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ تراویح کا معاملہ وسعت والا ہے۔
(مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز،ج 11، ص 322، ط: مکتبۃ الشاملۃ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن الکبری للبیھقی: (رقم الحدیث: 4288، 698/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وقد أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن الحسين بن فنجويه الدينوري بالدامغان، ثنا أحمد بن محمد بن إسحاق السني، أنبأ عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي، ثنا علي بن الجعد، أنبأ ابن أبي ذئب، عن يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد قال: " كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في شهر رمضان بعشرين ركعة " قال: " وكانوا يقرءون بالمئين، وكانوا يتوكئون على عصيهم في عهد عثمان بن عفان رضي الله عنه من شدة القيام "۔

موطا الامام مالک برواية يحيي بن يحيي الليثي: (رقم الحدیث: 249، ص: 60، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن مالک ، عن یزید بن رومان أنه قال : كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة.

مصنف ابن ابی شیبۃ: (رقم الحدیث: 7682، 163/2، ط: مکتبة الرشد)
حدثنا وكيع، عن مالك بن أنس، عن يحيى بن سعيد، «أن عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة»۔

الاحآدیث المختارۃ لضیاء الدین المقدسی: (رقم الحدیث: 1161، 367/3، ط: دار خضر)
أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة (إِسْنَاده حسن) .

سنن الترمذي: (160/3، ط: مصطفی البابي الحلبی)
وأكثر أهل العلم على ما روي عن عمر، وعلي، وغيرهما من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عشرين ركعة، وهو قول الثوري، وابن المبارك، والشافعي " وقال الشافعي: «وهكذا أدركت ببلدنا بمكة يصلون عشرين ركعة»۔

مجموع فتاوی ابن باز: (322/11)
وإن أوتر بثلاث وعشرين كما فعل ذلك عمر والصحابة - رضي الله عنهم - في بعض الليالي من رمضان فلا بأس؛ فالأمر واسع، وثبت عن عمر والصحابة - رضي الله عنهم - أنهم أوتروا بإحدى عشرة كما في حديث عائشة.
فقد ثبت عن عمر هذا وهذا، ثبت عنه - رضي الله عنه - أنه أمر من عين من الصحابة أن يصلي إحدى عشرة، وثبت عنهم أنهم صلوا بأمره ثلاثا وعشرين. وهذا يدل على التوسعة في ذلكز

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (141/27، ط: دار الصفوة)
فذهب جمهور الفقهاء - من الحنفية، والشافعية، والحنابلة، وبعض المالكية - إلى أن التراويح عشرون ركعة، لما رواه مالك عن يزيد بن رومان والبيهقي عن السائب بن يزيد من قيام الناس في زمان عمر - رضي الله تعالى عنه - بعشرين ركعة، وجمع عمر الناس على هذا العدد من الركعات جمعا مستمرا، قال الكاساني: جمع عمر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان على أبي بن كعب - رضي الله تعالى عنه - فصلى بهم عشرين ركعة، ولم ينكر عليه أحد فيكون إجماعا منهم على ذلك. وقال الدسوقي وغيره: كان عليه عمل الصحابة والتابعين. وقال ابن عابدين: عليه عمل الناس شرقا وغربا . وقال علي السنهوري: هو الذي عليه عمل الناس واستمر إلى زماننا في سائر الأمصار۔

و فیھا ایضا: (144/27، ط: دار الصفوة)
قال ابن تيمية: والأفضل يختلف باختلاف أحوال المصلين، فإن كان فيهم احتمال لطول القيام، فالقيام بعشر ركعات وثلاث بعدها، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي لنفسه في رمضان وغيره هو الأفضل. وإن كانوا لا يحتملونه فالقيام بعشرين هو الأفضل. وهو الذي يعمل به أكثر المسلمين، فإنه وسط بين العشر وبين الأربعين، وإن قام بأربعين وغيرها جاز ذلك ولا يكره شيء من ذلك. وقد نص على ذلك غير واحد من الأئمة كأحمد وغيره. قال: ومن ظن أن قيام رمضان فيه عدد موقت عن النبي صلى الله عليه وسلم لا يزاد فيه ولا ينقص منه فقد أخطأ .

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 10467 May 12, 2020
twenty / bees rakat tarweeh ka saheeh ahadees / ahadis or tabi'een kay aqwal sai / say suboot, Proof of twenty rak'ats / rakat / rakaat of Taraweeh from authentic hadiths and sayings of the tabeen

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Taraweeh Prayers

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.