سوال:
مفتی صاحب ! سورۃ السبا کی آیت نمبر 44 کی تفسیر بیان فرمادیں۔
جواب: "وَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ کُتُبٍ یَّدۡرُسُوۡنَہَا وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ قَبۡلَکَ مِنۡ نَّذِیۡرٍ﴿ؕ۴۴﴾ وَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۙ وَ مَا بَلَغُوۡا مِعۡشَارَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ فَکَذَّبُوۡا رُسُلِیۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ ﴿۴۵﴾".
(سورۃ سبا: آیت نمبر 44، 45)
ترجمہ:
حالانکہ ہم نے انہیں پہلے نہ ایسی کتابیں دی تھیں، جو یہ پڑھتے پڑھاتے ہوں اور نہ (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا (نبی) بھیجا تھا، اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی (پیغمبروں) کو جھٹلایا تھا، اور یہ (عرب کے مشرکین) تو اس ساز و سامان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ہیں، جو ہم نے ان (پہلے لوگوں) کو دے رکھا تھا، پھر بھی انہوں نے میرے پیغمبروں کو جھٹلایا، تو (دیکھ لو کہ) میری دی ہوئی سزا کیسی (سخت) تھی۔
تفسیر:
یعنی یہ لوگ (مشرکین عرب) اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔
نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے، تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔
(ماخوذ از آسان ترجمہ قرآن: مفتی محمد تقی عثمانی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی