سوال:
عرض خدمت یہ ہے کہ میں ایک مدرسہ میں مدرس ہوں، پورے سال درس و تدریس کی خدمت انجام دیتا ہوں، رمضان المبارک کے موقع پر مدرسہ کی طرف سے مجھے چندہ کے لئے بھیجا جاتا ہے۔
طریقہ یہ ہوتا ہے کہ رجب کی تنخواہ ملنے کے بعد مہتمم صاحب یہ فرماتے ہیں کہ شعبان اور رمضان کی تنخواہ چندہ کی رقم سے لے لینا۔ پھر یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جتنا چندہ کیا جائے گا اس میں سے چالیس فیصد میرا ہوگا اور باقی ساٹھ فیصد مدرسہ کے لیے ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر میں نے ایک لاکھ روپے چندہ کیا تو اس میں سے چالیس ہزار روپے میرے لئے ہوں گے اور اس کے علاوہ شعبان اور رمضان کی تنخواہ بھی اس سے منہا کر دی جاتی ہے، پھر جو رقم بچتی ہے وہ مدرسہ کے حوالہ کر دی جاتی ہے۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
۱۔ کیا اس طرح چندہ کرنا شرعاً درست ہے؟
۲۔ اگر یہ طریقہ درست نہیں ہے تو پھر صحیح اور شرعی طریقہ کیا ہوگا؟ جبکہ مدرسہ میں علیحدہ سے کوئی محصِّل (چندہ جمع کرنے والا) نہیں ہے، اس لیے یہ ذمہ داری اساتذہ ہی کو دی جاتی ہے۔ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں چندہ کرنے پر بطورِ اجرت چالیس فیصد دی جانی والی رقم آپ کے عمل اور محنت سے حاصل ہونے والے چندہ سے آپ کو دی جا رہی ہے، جبکہ اجیر (ملازم) کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز سے اس کو اجرت دینا جائز نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ طریقہ کے مطابق چندہ کرنے پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔
البتہ اگر آپ کے لیے اسی چندہ میں سے چالیس فیصد اجرت کے طور پر متعین کرنے کے بجائے مطلقاً اس کام پر تنخواہ مقرر کی جائے تو اس کی گنجائش ہے، اور ایسی صورت میں اس کام پر مقرر شدہ تنخواہ آپ کو اس چندہ سے بھی بعد میں دی جاسکتی ہے۔
نیز چندہ کی رقم کو مدرسہ میں جمع کرنے سے پہلے شعبان اور رمضان کی تنخواہ اس میں سے نہ لی جائے، بلکہ چندہ کی رقم کو مدرسہ کے فنڈ میں جمع کیا جائے، اس کے بعد شعبان اور رمضان کی جو تنخواہ بنتی ہے، وہ مدرسہ سے وصول کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الاجارۃ الفاسدۃ، 56/6، ط: دار الفکر)
(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل، لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفزا منه فيجوز.
(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اه. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي.‘‘
الفتاوی الھندیة: (کتاب الاجارۃ، 444/4، ط: دار الفکر)
(الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه) صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثورا ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنسانا ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزا من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد لأن الدقيق إذا لم يكن مضافا إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشارا إليه يجوز أن يكون دينا في الذمة ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی