سوال:
مفتی صاحب! ایک عورت کے پاس سونے کا سیٹ تھا، اس کے شوہر کو پیسوں کی ضرورت تھی تو اس نے اپنی بیوی سے لے لیا اور یہ طے نہیں کیا کہ واپسی کب دیگا، بس یہ کہا کہ زندگی آگے پڑی ہے کبھیہ بھی بنا کر دے دینگے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس عورت پر اس سیٹ کی زکوة واجب ہوگی؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں عورت نے چونکہ سونے کا سیٹ اپنے شوہر کو ادھار کے طور پر دیا ہے، اس لیے اگر اس سونے کی مالیت دیگر قابلِ زکوٰۃ چیزوں کے ساتھ ملانے پر نصاب کو پہنچ رہی ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت کے ذمّہ واجب ہوگی، البتہ اُس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس سیٹ کی زکوٰۃ کی ادائیگی کو شوہر کی طرف سے سیٹ ملنے تک موخّر کردے، اس صورت میں سونے کا سیٹ ملنے کے بعد عورت کے ذمّہ گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدرالمختار: (161/5، ط: سعید)
فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً۔
الدرالمختار: (305/2، ط: سعید)
(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
رد المحتار: (305/2، ط: سعید)
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی