سوال:
محترم مفتی صاحب ! دس محرم الحرام کے روزہ کی کیا فضیلت ہے اور اس کو رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: محرم الحرام کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر 'عاشوراء 'کہا جاتا ہے، یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا خصوصی طور پر حامل دن ہے، جب تک رمضان المبارک کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشوراء کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے، تو اس وقت عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے، ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجهے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہیکہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے گا، تو اس کے پچهلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، لہذا اس دن روزہ رکھنا سنت ہے، البتہ اس میں ایک مسئلہ اور بھی ہے، وہ یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشوراء کا دن آتا، تو آپ روزہ رکھتے، لیکن وفات سے پہلے جو عاشوراء کا دن آیا تو آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور ساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکهتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت ہوجاتی ہے، لہذا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملا کر 9محرم یا 11محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے، لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں آئی، لیکن چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمادی تھی، اس لیے صحابہ کرام نے عاشوراء کے روزہ میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9محرم یا 11محرم کا ایک روزہ اور ملا کر رکھا، اوراس کو مستحب قرار دیا اور تنہا عاشوراء کے روزے رکھنے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی قرار دیا، یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے، تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اس کو عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی، اس لیے اس خواہش کی تکمیل میں بہتر یہ ہیکہ ایک روزہ اور ملا کر دو روزے رکھے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2746)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ: رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَالَ: «لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ» - أَوْ قَالَ - «لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: «وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: «ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ: «وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ»
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2667)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی