سوال:
میرے چھ سال کے رمضان کے روزے کچھ آپریشنز کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے، اب وہ قضاء روزے ادا نہیں کر پارہی ہوں، کیا کفارہ سے قضاء پوری ہو سکتی ہے؟ اور کیا رمضان کے روزوں کا کفارہ صرف رمضان میں ہی دیا جاتا ہے یا عام دنوں میں بھی دے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ جس شخص کے ذمہ قضا روزے رکھنا لازم ہو، لیکن وہ مرض کی وجہ سے قضا روزے رکھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور آئندہ بھی صحت یابی کی امید نہ ہو تو ایسا شخص ہر روزے کے بدلے ایک فدیہ غرباء و مساکین کو ادا کرے گا، البتہ اگر وہ شخص فدیہ ادا کرنے کے بعد کسی وقت صحت مند ہو جائے اور روزے رکھنے پر قادر ہو جائے تو اس کے ذمہ ان روزوں کی قضا لازم ہوگی۔
فدیہ کی مقدار ہر روزے کے بدلے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے۔ نیز قضا شدہ روزوں کا فدیہ رمضان المبارک کے مہینے میں ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے، البتہ آنے والے رمضان کے روزوں کا فدیہ پہلے سے ادا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کی ادائیگی رمضان کا مہینہ شروع ہونے کے بعد کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشية الطحطاوي على مراقى الفلاح: (فصل في العوارض، ص: 688، ط: دار الكتب العلمية)
ويجوز الفطر لشيخ فان وعجوز فانية" سمي فانيا لأنه قرب إلى الفناء أو فنية قوته وعجز عن الأداء "وتلزمهما الفدية" وكذا من عجز عن نذر الأبد لا لغيرهم من ذوي الأعذار "لكل يوم نصف صاع من بر" أو قيمته بشرط دوام عجز الفاني والفانية إلى الموت.
قوله: "لشيخ فان" هو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت وإنما لزمته باعتبار شهوده الشهر وأبيح له للحرج وأفاد القهستاني عن الكرماني أن المريض إذا تحقق اليأس من الصحة أي صحة يقدر معها على الصوم فعليه الفدية لكل يوم وإن لم يقدر على الصوم لشدة الحر أفطر ويقضيه في الشتاء كما في البحر.
الدر المختار مع رد المحتار: (فصل في العوارض المبيحة للصوم، 427/2، ط: دار الفكر)
(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله.
(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اه وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء.
احسن الفتاوی: (446/4، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی