سوال:
بعض مدرسے والے دستار بندی کے موقع پر بچوں کے والدین سے کچھ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر کوئی پیسے نہیں دیتا تو اس کی دستاربندی بھی نہیں کی جاتی تو والدین مجبور ہوکر بچوں کی خوشی کے لیے وہ رقم ادا کردیتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس پیسوں سے تیار کی ہوئی چیز کھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ مدرسے کی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کی تعلیمی فراغت و دستار بندی کے موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے دستاربندی کی مجلس منعقد کرنا شرعا مباح عمل ہے، لیکن اس کے لیے طلبہ کے سرپرستوں سے ان کی دلی خوشی و رضامندی کے بغیر رقم اکھٹی کرنا شرعاً ناجائز کام ہے، البتہ اگر کوئی سرپرست اپنی خوشی اور رضامندی سے اور بغیر کسی جبر یا ملامت کے خوف کے رقم دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآية: 188)
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِهاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ o
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 20715، ط: مؤسس قرطبة، القاھرۃ)
عن أبی حرۃ الرقاشی عن عمه قال: کنت آخذا بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم فی أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس ، فقال: "یا أیها الناس ! ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی