ماہِ رمضان کے فضائل، مسائل اوررسومات و بدعات
(دارالافتاء الاخلاص)

ماہِ رمضان اسلامی سال کا نواں قمری مہینہ ہے۔

ماہِ رمضان کا لغوی معنی اور وجہ تسمیہ:
۱۔’’رمضان ‘‘ ’’ رمضاء‘‘ سے مشتق ہےاور’’ رمضاء‘‘ کا معنی ‘‘سخت گرم زمین ‘‘ہے۔ جس زمانے میں اس مہینے کا نام رکھا گیا تھا، عرب میں اُس وقت گرمی کا موسم تھا ، اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا، اس وجہ سے اس مہینے کا نام’’رمضان ‘‘ رکھا گیا۔(۱)
۲۔ ’’ إرماض ‘‘ سے مشتق ہوسکتا ہےاور’’ إرماض ‘‘کا معنی ‘‘جلانا ‘‘ہے، چونکہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے، اس وجہ سے اس مہینے کا نام ’’رمضان ‘‘ رکھا گیا۔(۲)
۳۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’رمضان ‘‘ ’’رمض الصائم‘‘ سے مشتق گیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ ’’روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی‘‘،چونکہ رمضان میں روزہ دار بھوک و پیاس کی شدت اور گرمی محسوس کرتا ہے، اس وجہ سے اس مہینے کا نام ’’رمضان ‘‘ رکھا گیا۔(۳)
ماہِ رمضان کے نام
احادیث مبارکہ میں ماہِ رمضان کی کئی نام ذکر کیےگئے ہیں ۔
۱۔شھر الصبر
حضرت مجبیبہ باہلی اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ماہِ رمضان کو ’’شھرالصبر‘‘ کہا گیا ہے۔(۴)
۲۔شھرمبارک
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ماہِ رمضان کو ’’شھرمبارک‘‘ کہا گیا ہے۔(۵)
۳۔ شھرالمؤاساۃ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی روایت میں ماہِ رمضان کو ’’شھرالمؤاساۃ‘‘ کہا گیا ہے۔(۶)
۴۔ شھرمطھر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ماہِ رمضان کو ’’شھرمطھر ‘‘ کہا گیا ہے۔(۷)
علامہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابوالخیر طالقانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ماہِ رمضان کے ساٹھ نام ذکرکیے ہیں۔(۸)

ماہِ رمضان کی آمد پر دعا
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ہمیں رمضان کی آمد یہ کلمات سکھایاکرتے تھے کہ ہم یہ کہا کریں کہ ’’اللَّهُمَّ سَلِّمْنِي مِنْ رَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلاً.‘‘ یعنی’’اے اللہ ! مجھے رمضان کےلئے اور رمضان کو میرے لیے سلامت رکھ اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کاذریعہ بنا۔ (کتاب الدعاء للطبرانی،حدیث نمبر:۹۱۲،ج:۲،ص:۱۲۲۶،ط: دار البشائر الإسلامية)(۹)

ماہِ رمضان کے فضائل
۱۔ماہِ رمضان نزول ِقرآن کا مہینہ ہے۔
’’رمضان ‘‘ کی فضیلت کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کو نازل فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًۭى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٍۢ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِ۔
(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:۱۸۵)
ترجمہ:
رمضان کا وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا ،جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔
۲۔اسی طرح اس مہینے میں دوسری آسمانی کتابیں بھی نازل کی گئی ہیں

حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات اور تورات چھ رمضا ن اور انجیل تیرہ رمضان اور زبور اٹھارہ رمضان اور قرآن کریم چوبیس رمضان گزرنے کے بعد (کسی رات میں) نازل ہوا۔
فائدہ: یہ روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے،لیکن دوسری کئی روایات اس کی تائید کرتی ہیں ، اس لیے یہ حدیث فضائل کے باب میں ضعف کی صراحت کے ساتھ قابلِ قبول ہے۔(۱۰)

۳۔رمضان سارے مہینوں کا سردار ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جمعہ دنوں کا سردار ہے اور رمضان مہینوں کا سردار ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ،حدیث نمبر:۹۰۰۰، ط: مكتبة الرشد)(۱۱)

فائدہ:
۱۔اس روایت کی سند پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے ، علامہ ہیثمی ؒ نے کہا کہ ابوعبیدہ کا سماع اپنے والد سے ثابت نہیں ہے،لیکن اس روایت کے مضمون کی تائید دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے۔
۲۔علامہ ابن تیمیہ ؒ نے ابوعبیدہ کے اپنے والد سےسماع نہ ہونے کے قول پر کلام کرتے ہوئے ابوعبیدہ کی اپنے والد سے روایت کو معتبر قراردیا ہے۔
۳۔ فضائل کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے ۔(۱۲)

۴۔ماہِ رمضان گناہوں کی بخشش کامہینہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے فرمایا :جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے ماہِ رمضان کے روزے رکھے ،اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام اللیل (یعنی تراویح، تہجد) کیا اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۰۱۴، ط:دارطوق النجاۃ)(۱۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کی زندگی میں رمضان آیا اور اس کی مغفرت ہونے سے پہلے گذر گیا اور اس شخص کی ناک بھی خاک آلود ہو، جس کے سامنے اس کے والدین کو بڑھاپا آئے اور وہ ان کے ذریعے جنت میں داخل نہ ہوسکے۔ (سنن ترمذی ،حدیث نمبر: ۳۵۴۵، ، ط: دار الغرب الإسلامی)(۱۴)

ان روایات سے معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے۔

۵۔ماہِ رمضان رحمت اور جنت کے دروازے کھلنے، جہنم کے دروازے بند ہونے اور شیاطین کے قید ہونے کا مہینہ ہے۔
ماہِ رمضان میں رحمت اور جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو قید کردیاجاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۱۸۹۹، ط: دار طوق النجاۃ)(۱۵)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماہ رمضان آتا، تو نبی کریم ﷺ فرماتے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آچکا ہے، یہ مبارک مہینہ ہے، اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں، اس مبارک مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر یے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس کی خیروبرکت سے محروم رہا، وہ مکمل طور پر محروم ہی رہا۔(مسندأحمد،حدیث نمبر:۷۱۴۸،ط:مؤسسۃ الرسالۃ) (۱۶)

۶۔ماہِ رمضان برکت والا مہینہ ہے۔
ماہِ رمضان میں اللہ تعالی نے بہت سی برکتیں رکھی ہیں ۔رمضان میں روزے رکھے جاتے ہیں ، سحری اور افطار کیا جاتا ہے، اللہ تعالی نے سحری اور افطار میں برکت رکھی ہے۔

سحری میں برکت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۰۹۵،ط: دار إحياء التراث العربي)(۱۷)

افطار ی میں برکت
حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے جو شخص روزہ دار ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ کھجور سے افطار کرے، کیونکہ یہ باعث برکت ہے، اگر کھجور نہ مل پائے تو پھر پانی سے افطار کر لے، کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔(سنن ترمذی ، حدیث نمبر:۶۵۸، ج:۲، ص: ۳۹ ،ط: دار الغرب الإسلامی)(۱۸)

۷۔ماہِ رمضان میں نیک عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔

ماہِ رمضان میں نیک اعمال کے ثواب میں دوسرے مہینوں کی نسبت اضافہ ہوجاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔(سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر:۲۹۹۴، ج:۴، ص:۴۶۵،ط: دار الجیل)(۱۹)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ عبادت کی فضیلت وقت کی فضیلت کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔(۲۰)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ جس طرح حضورِ قلب اور اخلاصِ نیت کی وجہ سے عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اسی طرح مبارک وقت کی وجہ سے بھی عمل کا ثواب بڑھ جاتاہے۔(۲۱)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں ایک خطبہ دیا ، اس میں فرمایا: اے لوگو!تمہارے اوپر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے ، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں کھڑے ہونے (تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ، جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیےکوئی غیرفرض عبادت (سنت یا نفل )ادا کرے گا ، تواس کو رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کےستر فرضوں کے برابر ثواب ملےگا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ ہمدردی ، غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں مؤمنوں کے رزق میں اضافہ کیاجاتاہے ، جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کےحصول کے لئے) افطار کرایا،تو اس کےلئے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگااور اس کو، روزہ دار کے ثواب میں کمی کیے بغیر روزہ دار کے برابرثواب دیاجائے گا۔
حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطارکرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ۔آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی اس شخص کو بھی ثواب عطاء فرمائےگا،جو ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ یالسی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرادے، یہ ایسا مبارک مہینہ ہے ،جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہےاور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو، دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں، جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے،جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنااور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا۔جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائےگا ،وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كرےگا۔(صحیح ابن خزیمۃ، حدیث نمبر:۱۸۸۷ ،ط:المکتب الإسلامی) (۲۲)

۸۔ماہِ رمضان ابتدائی حصہ رحمت ہےاور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی طویل روایت میں ہے کہ ماہِ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہےاور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔(روایت ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہے۔)
فائدہ :
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتابوں میں ذکرکی گئی ہے۔
۱۔ بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث:۱؍۴۱۲(۳۲۱)،ط: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية
۲۔ شعب الإیمان للبیھقی:۵؍۲۲۲(۳۳۳۶)،ط:مکتبۃ الرشد
۳۔فضائل الأوقات للبیھقی:۱۴۶(۳۷)،ط: مكتبة المنارة
۴۔ أمالي المحاملي:۲۸۶(۲۹۳)ط: المكتبة الإسلامية
۵۔فضائل رمضان لابن شاہین:۱۴۵(۱۶)،ط: دار ابن الأثير
۶۔ فضائل رمضان لابن ابی الدنیا:۶۹(۴۱)،ط: دار السلف
۷۔ الترغیب و الترھیب للمنذری:۲؍۵۸(۱۴۴۸)،ط:دارالکتب العلمیۃ
۸۔الترغیب و الترھیب لقوام السنۃ:۲؍۳۴۹(۱۷۵۳)،ط:دارالحدیث
۹۔الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن الحجر الهيتمي:۱؍۳۲۷،ط: دار الفكر
۱۰۔ اتحاف الخیرۃ المھرۃ للعلامۃ البوصیری:۳؍۶۹،(۲۱۹۷)،ط: دار الوطن
۱۱ ۔المطالب العاليةلابن الحجر العسقلانی:۶؍۳۳(۱۰۰۶)،ط: دار العاصمة
۱۲۔معالم التنزیل لمحی السنۃ البغوی:۱؍۲۰۳،ط: دار طيبة
ابن خزیمہ نے اس روایت کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے’’ باب فضائل شهر رمضان إن صح الخبر ‘‘یعنی یہ باب ماہِ رمضان کے فضائل کے بارے میں ہے، بشرطیکہ روایت صحیح ہو۔
اس روایت کا مدار ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘پر ہے اور محدثین کرام کی ایک جماعت نے انہیں ضعیف قرار دیا اور بعض محدثین کرام نے ان پر سخت جرح کی ہے اور بعض نے ان کی بعض روایات کی تصحیح یا کم ازکم تحسین کی ہے،جیسا کہ امام ترمذی نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘سے مروی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:حدیث حسن صحیح اور علامہ ذھبی نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘کو صالح الحدیث قرار دیا اورعلامہ ابن ملقن نے انہیں’’حسن الحدیث ‘‘کہا اور ابن خزیمہ نے ان کو حافظہ کی جہت سے ضعیف قرار دیا ہے ،نہ کذب کی جہت سے۔(تفصیل کے لیے حاشیہ دیکھیے)(۲۳)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس روایت کا تعلق ،چونکہ فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں ضعیف روایت قابل ِقبول ہے ،لہذا اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔(۲۴)

۹۔ ماہِ رمضان دعاؤں کی قبولیت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے ، تو جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں ،پس جنت کاکوئی دروازہ پورے مہینے بند نہیں کیا جاتا اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، پس جہنم کا کوئی دروازہ پورے مہینے کھولا نہیں جاتا اور سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں اور آسمان سے پکارنے والا صبح تک یہ پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے ! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ ، اور اے برائی کے چاہنے والے ! اپنی برائی سے رک جا، ہے کوئی دعا کرنے والا، جس کی ہم دعا قبول کریں ، ہے کوئی مانگنے والا، جس کو ہم مانگی ہوئی چیز دیں اور اللہ تعالی رمضان کے پورے مہینے افطار کے وقت ہر رات میں جہنم سے ساٹھ ہزار لوگوں کو آزاد کردیتا ہے، پس جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے ، تو پورے مہینے میں جتنے آزاد کیے تھے،اتنے تیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار آزاد کردیتا ہے۔(شعب الإیمان للبیھقی ،حدیث نمبر: 3334 ،ط:مکتبۃ الرشد)(۲۵)

۱۰۔امتِ محمدیہ کےلئے ماہِ رمضان کی پانچ خصوصیات
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں:
۱۔ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
۲۔ان کےلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
۳۔جنت ہر روز ان کےلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
۴۔اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے ،جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
۵۔رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے عرض کیا:کیایہ شب قدرہے؟ ارشادفرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے۔(مسندأحمد،حدیث نمبر:۷۹۱۷، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)(۲۶)

۱۱۔ماہ رمضان کی عبادت کا اثر تمام سال رہتا ہے۔
حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ رمضان المبارک کی عبادت کا اثر اس کے بعد گیارہ مہینے تک رہتا ہے، جو کوئی اس میں کوئی (بھی) نیکی بہ تکلف کر لیتا ہے، اس کے بعد اس پر بآسانی قادر ہو جاتا ہے اور جو کوئی کسی گناہ سے اس میں اجتناب کر لے،تو تمام سال بآسانی احتیاط ہو سکتی ہے اور اس مہینہ میں معصیت و گناہ سے اجتناب کرنا کچھ مشکل نہیں، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ۔(خطبات حکیم الامت،ج:۱۶، ص:۱۷،ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

ماہِ رمضان کے اعمال

۱۔روزہ رکھنا
ماہ ِرمضان کی برکات اور انوارات حاصل کرنے لیے اہلِ ایمان کواس مہینے میں جن خصوصی اعمال کاحکم دیا گیا ہے ،ان میں سرِفہرست روزہ ہے،روزے کے فضائل بہت زیادہ ہیں ،ان سب کااحاطہ کرنامشکل ہے،چند فضائل درج ذیل ہیں:
روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔

ارشاد باری تعالی ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}
ترجمہ:
’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ۔

روزہ اللہ تعالی کا وہ فریضہ ہے، جس کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، میری وجہ سے وہ اپنی خواہش کو اور کھانے اور پینے کو چھوڑتا ہے اور روزہ ڈھال ہے اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں :ایک خوشی جس وقت روزہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی جس وقت اپنے رب سے ملاقات کرے گا اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۷۴۹۲، ط:دارطوق النجاۃ)(۲۷)

۲۔سحری کھانا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۰۹۵،: دار إحياء التراث العربي)(۲۸)

حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہمارے روزے اور اہل ِکتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۰۹۶،ط: دار إحياء التراث العربي)(۲۹)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو رمضان میں سحری کے کھانے پر مدعو کیا ،تو فرمایا:آؤمبارک کھانے کی طرف۔(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر:۲۳۴۴، ط: المکتبۃ العصریۃ)(۳۰)

ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آخری شب میں سحری کھانا، خواہ مختصر ہو، مستحب ہے ،علامہ ابن منذر نے سحری کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کیاہے۔(۳۱)

فائدہ:
۱۔واضح رہے کہ سحری جس قدر دیر کرکے کھائی جائے، مسنون ہے، بشرطیکہ صبح صادق سے پہلے کھا لے، اگر کسی نے بہت پہلے سحری کرلی تو اس کا روزہ تو صحیح ہوگا، البتہ بلا ضرورت ایسا کرنا اچھا نہیں اور اس طرح کی عادت بنا لینا خلاف سنت ہے، لہذاسحری کے آخری وقت میں بھی ایک دو لقمے کھانا، یا پانی وغیرہ پی لیا جائے، تاکہ خلاف ِسنت عمل سے احتراز ہوجائے۔(۳۲)
۲۔بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب تک فجر کی اذان نہ ہوجائے، اس وقت تک سحری کھانا درست ہے،ان کی یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ سحری کا آخری وقت صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہےاور اذان صبح صادق طلوع ہونے کے بعد دی جاتی ہے،لہذا اگر اس طرح روزہ رکھا کہ سحری کے بعد اذان کے ختم تک کھانا پینا جاری رکھا،تو وہ روزہ ادا نہ ہوگا اور اس کی قضاء لازم ہوگی۔(۳۳)
۳۔افطاری کرنا
سورج غروب ہوجائے، تو روزہ مکمل ہوجاتا ہے۔اللہ تعالی نے اپنے فضل سے روزہ مکمل ہونے پر نہ صرف کھانے پینے کوجائز قراردیا ،بلکہ اسے بھی عبادت اورباعثِ ثواب قراردیا اور افطار کرنے میں جلدی کرنے کوپسند فرمایا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں :ایک افطار کے وقت، دوسری اس وقت جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا۔(سنن ترمذی ، حدیث نمبر:۷۶۶،ط: دار الغرب الإسلامی)(۳۴)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہر افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ بہت سوں کو دوزخ سے آزاد فرماتے ہیں اور ایسا ہر شب ہوتا ہے ۔ (سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر:۱۶۴۳، ط: دار الجیل)(۳۵)

افطاری میں بلا عذر تاخیر کرنا ناپسندیدہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دین غالب رہے گا، جب تک کہ لوگ روزہ جلدی افطار کیا کریں گے،کیونکہ یہود اور نصاری روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر:۲۳۵۵،ط: المکتبۃ العصریۃ) (۳۶)

افطار کس چیز سے کرنا چاہیے؟
حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے جو شخص روزہ دار ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ کھجور سے افطار کرے، کیونکہ یہ باعث برکت ہے، اگر کھجور نہ مل پائے تو پھر پانی سے افطار کر لے، کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔( سنن ترمذی ، حدیث نمبر:۶۵۸،ط: دار الغرب الإسلامي)(۳۷)


افطار کی دعا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت پڑھی جانے والی دو دعائیں احادیث کی کتابوں میں وارد ہے :

۱۔ “اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ” ۔
(سنن أبی داؤد،حدیث نمبر:۲۳۵۸،ج:۲،ص:۳۰۶،ط:المکتبۃ العصریۃ)(۳۸)
۲۔ "ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہ"
(سنن أبی داؤد،حدیث نمبر:۲۳۵۷،ج:۲،ص:۳۰۶،ط:المکتبۃ العصریۃ)(۳۹)

“اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ” والی دعا افطار کرنے سے پہلے افطار شروع کرتے وقت پڑھی جائے، اس دعا میں الفاظ اگرچہ ماضی کے ہیں، لیکن ایسے موقعوں پر فعل ماضی کا استعمال معروف ہے اور دوسری دعا"ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہ" افطاری کے بعد پڑھی جائے۔

نوٹ: واضح رہے کہ افطار کی یہ دعا عوام کی زبانوں پر ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ مشہور ہے، ’’اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت‘‘. حالانکہ دعا میں: ’’وبك آمنت وعليك توكلت‘‘. کےالفاظ ثابت نہیں ہیں، صرف یہ الفاظ ثابت ہیں: ’’ اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت‘‘.، لہذا جو الفاظ ثابت ہیں، اسی کو پڑھا جائے۔(۴۰)

۴۔قیامِ رمضان
ماقبل میں رمضان کی راتوں میں قیام کی فضیلت سے متعلق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت گزرچکی ، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا یعنی اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں کھڑے ہونے (تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے فرمایا :جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام اللیل (یعنی تراویح، تہجد) کیا، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۰۱۴، ط:دارطوق النجاۃ)(۴۱)

فائدہ:
۱۔قیام ِرمضان یعنی رمضان کی راتوں میں عبادت کی دو اہم صورتیں سنت سے ثابت ہیں :۱۔تراویح ،۲۔تہجد
۲۔تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں اور دونوں میں مختلف اعتبار سے فرق ہے۔
1۔ تہجد کا ذکر قرآن کریم میں ہے، جبکہ تراویح کا ذکر صرف حدیث شریف میں ہے۔(۴۲)
2۔ تہجد پورے سال پڑھنے کی نماز ہے اور تراویح رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے۔
3۔ تہجد کا اصل وقت آخر رات ہے اور تراویح کا اصل وقت عشاء کی نماز کے فوراً بعد ہے۔(۴۳)
4۔ تہجد میں جماعت نہیں ہے، جبکہ تراویح کی نماز میں جماعت مسنون ہے۔(۴۴)
5۔ تہجد میں قرآن مجید ختم کرنا سنت نہیں، جبکہ تراویح کی نماز میں پورا قرآن شریف ختم کرنا سنت ہے۔(۴۵)

۵۔تراویح
عشاء کے چار فرض اور دو سنتوں کے بعد بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی ہے،یہ بیس رکعات دو ، دورکعات کرکے اد اکی جاتی ہے اور ہرچار رکعات کے بعد مختصر وقفہ کیاجاتاہےاور یہ بیس رکعات تراویح اور اس میں پورے ماہ کے دوران ایک قرآن کریم کی تکمیل کرنا سنت ہے۔

بیس رکعت تراویح کا صحیح احادیث اور تابعین کے اقوال سے ثبوت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیس رکعات تراویح کے متعلق جو روایات منقول ہیں، اسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
۱۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے، اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے، اور امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔(السنن الکبری للبیھقی ،ج :۲ ، ص ۶۹۸،رقم الحدیث : ۴۲۸۸، ط: دارالکتب العلمیۃ)

مشہور حنفی محقق علامہ محمد بن علی نیموی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ( معتبر ) ہیں، اس حدیث کی سند کو امام نووی نے اپنی کتاب " الخلاصہ" میں، امام ابن العراقی نے "شرح التقریب " میں ، اور امام سیوطی نے " المصابیح" میں صحیح کہا ہیں۔

(التعلیق الحسن علی آثار السنن : ص :۲۴۶ ، ط: مکتبۃ البشری)

۲۔ امام مالکؒ نے یزید بن رومانؒ سے روایت کیا ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین) حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان المبارک کے مہینے میں تئیس رکعات (تین رکعت وتر سمیت) تراویح پڑھا کرتے تھے۔

(مؤطّا الامام مالك بروايۃ يحيي بن يحيي الليثي ، ص :۶۰ ، رقم الحدیث : ۲۴۹، ط: مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ)

اس حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے، لیکن مرسل روایت جمہور (جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں) کے نزدیک حجت ہے، نیز مرسل روایت کی تائید جب دوسرے صحیح مرسل روایت سے ہوجاتی ہے تو وہ قابل حجت ہوتی ہے، ذیل کی روایت بھی مرسل ہے، لہذا وہ اس کی مؤید ہے۔

۳۔ یحیی ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ،ج :، ص :۱۶۳، رقم الحدیث : ۷۶۸۲، ط: مكتبة الرشد)

اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، اور مرسل ہونے کی وجہ سے ماقبل روایت کے لیے مؤید ہے۔

۴۔ حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین! آپ نے ایک ایسی بات کا حکم دیا ہے، جس پرآپ ﷺ کے زمانے میں عمل نہیں رہا ہے (یعنی باجماعت تراویح پڑھنا)، حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں، لیکن یہی بہتر ہے، توحضرت ابی بن کعبؓ نے بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی۔

(الأحاديث المختارة لضياءالدين المقدسي: ج:۳، ص ۳۶۷، رقم الحدیث :۱۱۶۱، ط: دار خضر)

۵۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھتے پایا ہے۔

(جامع الترمذی : ج :۳، ص :۱۶۰، ط: مطبعۃ مصطفى البابي الحلبي – مصر)

حضرات تابعین کے چند مشاہدات بھی ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:

۱۔جلیل القدر تابعی حضرت عطاءؒ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ) کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ آثار السنن،ص :۲۴۷،ط : مکتبۃ البشری)

امام نیموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن (صحیح کی ایک قسم ) ہے۔

۲۔ ابوالخصیبؒ کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ ہمیں تراویح پانچ ترویحےپڑھاتے تھے، جو کہ بیس رکعات بنتی ہیں۔
(السنن للبیھقی بحوالہ آثار السنن، ص :۲۴۷، ط : مکتبۃ البشری)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔

ان صحیح روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام اور حضرات تابعین کو بیس رکعت تراویح پر جمع فرمایا تھا، اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی اس تعداد کی مخالفت اور تبدیلی بھی ثابت نہیں ہے، لہذا بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین، بلکہ اس وقت موجود تمام صحابہ کرام کا متفقہ سنت طریقہ ثابت ٹھہرا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صرف دو سال بعد شروع ہوا ہے، لہذا بیس رکعت کا فیصلہ بالکل دور نبوی اور مزاج نبوی کے موافق تھا۔

نیز جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے ، ویسے ہی حضرات خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم بھی دیا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :

تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو، اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور (دین میں) نئی چیزوں کی ایجاد سے بچو، کیونکہ دین میں ( اپنی طرف سے ) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

(سنن ابی داود،ج:۴، ص :۲۰۰، رقم الحدیث : ۴۶۰۷، ط: المکتبۃ العصریۃ)

ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے پر اتفاق ہے۔

(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج :۲۷، ص ۱۴۱، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
اگر لوگ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، تو ایسی صورت میں بیس رکعت تراویح پڑھنا افضل ہوگا۔ اسی تعداد پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے، اور یہی تعداد دس اور چالیس رکعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج:۲۷، ص :۱۴۴، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)

سعودیہ کے مشہور عالم علامہ ابن بازؒ کہتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص بیس رکعات تراویح پڑھتا ہے، جیسا کہ حضرت عمرؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے رمضان کی بعض راتوں میں منقول ہے، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ تراویح کا معاملہ وسعت والا ہے۔
(مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز،ج :۱۱، ص :۳۲۲)

۶۔تہجد کی نماز
آخر شب میں اٹھ کر آٹھ رکعات (ورنہ چار رکعات)نفل نماز تہجد کہلاتی ہے۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ ابوسلمہ نےجناب رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ رمضان میں آپ ﷺ کی نماز کیسی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور دوسرے مہینوں میں رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعتوں پراضافہ نہ فرماتے تھے، چار رکعت پڑھتےاور تم مت پوچھوکہ وہ چاررکعت کتنی حسین اورطویل ہوتی تھیں، پھر چار رکعتیں پڑھتے اور تم مت پوچھوکہ وہ چاررکعت کتنی حسین اورطویل ہوتی تھیں، پھر تین رکعت نمازوترپڑھا کرتےتھے، حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !کیا آپ ﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ! میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا قلب(دل) نہیں سوتا۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۱۱۴۷، ط:دارطوق النجاۃ)(۴۶)

لہذا رمضان المبارک میں بہتر یہ ہے کہ آدمی عشاء کی نماز کے بعد تراویح کی بیس رکعت ادا کرے اور پھر آخر شب میں اٹھ کرآٹھ رکعت (ورنہ چار رکعت ہی سہی)تہجد کی نماز بھی ادا کرے،تاکہ قیام ِرمضان کی دونوں سنتوں تروایح اور تہجد پر عمل ہوسکے۔
۷۔ماہ ِرمضان میں تلاوت کی کثرت
ماہِ رمضان تو قرآن کریم ہی کی تلاوت کا مہینہ ہے اور رمضان اور قرآن کریم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جہاںرمضان کے مہینے میں روزوں کی فرضیت بیان فرمائی ہے، وہیں ماہِ ر مضان کو نزولِ قرآن کریم کا مہینہ بھی قراردیا۔
ارشادباری تعالی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًۭى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٍۢ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِ۔
(سورۃ البقرۃ،ٓآیت نمبر:۱۸۵)
ترجمہ:
رمضان کا وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا ،جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ہر سال قرآن کا ایک بار دور کرتے تھے، لیکن جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی ،اس سال دومرتبہ قرآن کریم کا دورکیا۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۴۹۹۸،ط:دارطوق النجاۃ)(۴۷)
اس لیے ہم سب مسلمانوں کو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کرناچاہیے۔

۸۔رمضان میں سخاوت کا اہتمام
رمضان میں حسبِ استطاعت صدقہ ، ہدیہ اور سخاوت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرناچاہیے۔اپنے گھر والوں کو اچھا کھلاناپلانا،پڑوسیوں ،رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ، فقراء مستحقین کو تلاش کرکے ان تک ضرورت کی اشیاءپہنچانا، گھروالوں اورعام مسلمانوں کے لیے سحری اورافطاری کا انتظام کرنا سب اس نیکی میں شامل ہے،لہذا اللہ کے راستہ میں حسب استطاعت خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں جب جبرائیل آپ ﷺ سے ملتے ،تو آپ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرائیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے، نبی ﷺ بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۶،ط:دارطوق النجاۃ)(۴۸)


۹۔ماہِ رمضان کے عشرہ اخیرہ کا اہتمام
ویسے تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی برکتوں اور رحمتوں والا ہے،لیکن اس کے آخری دس دن زیادہ فضیلت واہمیت کے حامل ہیں۔آپﷺ اس آخری عشرے میں عبادت الہی میں بہت محنت کرتے،خود جاگتے ،گھر والوں کوبھی جگاتے اور سار ی ساری رات عبادت میں مشغول رہتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں عبادت کی وہ کوشش فرماتے،جوعشرہ اخیرہ کے علاوہ آپ نہ کرتے تھے۔(سنن ترمذی ،حدیث نمبر: ۷۹۶،ط: دار الغرب الإسلامی)(۴۹)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ جب عشرہ اخیرہ شروع ہوتا، توجناب نبی کریم ﷺ کمرکس لیتے تھے(بہت زیادہ مستعد ہو جاتے) رات کو خود جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۰۲۴) (۵۰)

۱۰۔عشرہ اخیرہ میں اعتکاف
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے ،پھر یہ معمول برابر جاری رہا ،یہاں تک آپﷺ کی وفات ہوگئی۔(سنن دارقطنی،حدیث نمبر:۲۳۶۲،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)(۵۱)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔( صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۰۲۵)(۵۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں فرمایا: معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے ۔( سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر:۲۹۹۴، ج:۴، ص:۴۶۵،ط: دار الجیل) (۵۳)
فائدہ:
علامہ بوصیری ؒ نے اس روایت کو’’ فرقد السبخي‘‘ راوی کی وجہ سے ضعیف قراردیاہے،(۵۴) لیکن چونکہ روایت کا تعلق فضائلِ اعمال سے ہے اور فضائلِ اعمال کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہے۔

۱۱۔عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر کی تلاش
ماہِ رمضان اور اس کے آخری عشرے کی فضیلت میں اضافہ کرنے والی رات“شبِ قدر” کی ہے۔قرآن وحدیث میں اس رات کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے،اگر اس رات کو ’’سید اللیالی‘‘یعنی راتوں کی سردار کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا،اسی لیے آپﷺنے امت کو اس رات کے تلاش کرنے کی ترغیب دی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہےکہ جناب رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۰۲۰) (۵۵)

شبِ قدر کی فضیلت
شبِ قدر کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تعالی نے اس کی فضیلت میں قرآن کریم کی پوری ایک سورۃ ’’سورۃ القدر‘‘نازل فرمائی،جس میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ:بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔ وہ صبح روشن ہونے تک سلامتی کی رات ہے۔

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے شب ِقدر میں
حالت ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کیا، تو اس کےگذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:35) (۵۶)

شبِ قدر کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہےکہ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے، تو کیا دعا کروں ؟آپﷺنے فرمایا: تم یہ کہنا “أَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي”.یعنی اے اللہ ! آپ بہت درگزر فرمانے والے ہیں۔ درگزر کرنے کو پسند کرتے ہیں، اس لئے مجھ سے درگزر فرمایئے ۔.(سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر:۳۸۵۰)(۵۷)

رمضان المبارک کی بدعات اور رسومات
رمضان المبارک کی طاق راتوں میں چراغاں کرنا
رمضان المبارک کی طاق راتوں میں چراغاں کرنااسراف اور فضول خرچی ہے اور مسجد کی بجلی کا ناجائز استعمال ہے ، علامہ ابن نجیم ؒ لکھتے ہیں :
مسجد کے عام معمول سے زیادہ روشنی کا انتظام کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ اسراف ہے، ۔۔۔اورمساجد میں بھی چراغاں کرنا بدعت ہے۔(۵۸)
علامہ حمویؒ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
اور جو خرابیاں مسلمانوں میں پھیلتی جارہی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مساجد میں چراغاں کیا جاتا ہے ، او رتمام رات چراغ روشن رہتے ہیں، حالانکہ یہ یہود کا شعارو طریقہ ہے جو کہ وہ اپنے گرجوں میں کرتے ہیں ، اورمسلمان زیادہ تر شب عید (عیدالفطر) عیدالاضحی (عید میلاد) میں کرتے ہیں حالانکہ یہ حرام ہے۔(۵۹)

رمضان المبارک میں صلوۃ التسبیح کی جماعت کرانا
واضح رہے کہ شریعت نے عبادت کو جس انداز میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسے ویسے ہی ادا کرنا چاہیے، شریعت نے نماز پنج گانہ اور جمعہ وعیدین وغیرہ کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نوافل کو انفراداً ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس لئے کسی نفلی نماز کو (خواہ صلوة التسبیح ہو یا کوئی اور) جماعت سے ادا کرنا منشائے شریعت کے خلاف ہے، اس لیے حضرات فقہاء نے نفل نماز کی جماعت کو (جبکہ مقتدی دو سے زیادہ ہوں) مکروہ لکھا ہے اور خاص راتوں میں اجتماعی نماز ادا کرنے کو بدعت قرار دیا ہے، لہذا کسی اور خاص رات میں اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے۔(۶۰)

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو قضائے عمری پڑھنا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کسی سے عمر بھر کی نمازیں قضا ہوگئی ہوں، تو رمضان المبارک کے آخری جمعے میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا بارہ رکعت قضاکی نیت سے پڑھے تو قضا نمازوں سے اس کا ذمہ بری ہو جاتا ہے اور اسے “قضائے عمری” کہا جاتا ہے۔

مروجہ قضائے عمری کی شرعی حیثیت
واضح رہے کہ مروجہ قضائے عمری بدعت ہے، نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے اور نہ حدیث میں اس بارے میں کوئی روایت ہے، نہ صحابہ کے آثار ہیں ،نہ ہی تابعین ،تبع تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہےاور ائمہ ار بعہ کے مذہب کی معتبر کتا بوں میں بھی اس کا کو ئی ذکر اور نا م و نشا ن نہیں ہے۔ اس بارے میں جو روایت پیش کی جاتی ہے ،وہ موضوع (من گھڑت)ہے۔
ملا علی قا ریؒ فر ما تے ہیں :
یہ روایت کہ "جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں، ان سب کی تلافی ہو جاتی ہے" یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے، اس لئے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے، اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ہے۔(الموضوعات الکبری:ص:۳۵۶، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)(۶۱)
علا مہ قا ضی شو کا نیؒ فر ما تے ہیں : یہ حدیث کہ "جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے، ان سے اس کے سال بھر کی جتنی نمازوں میں خلل رہا ہو، ان سب کی قضا ہو جاتی ہے" کسی شک کے بغیر موضوع ہے۔ (الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،ص:۵۴،ط:دارالکتب العلمیۃ)(۶۲)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :
رمضان شریف کے آخری جمعہ میں قضاعمری بطریق مخصوص پڑھناثابت نہیں ہے۔( فتاوی دارالعلوم دیوبند،ج:۳، ص:۲۴۸،ط:دارالاشاعت )

مشہوربریلوی عالم مفتی امجد علی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قضائے عمری کہ شبِ قدر یا اخیر جمعۂ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اسی ایک نماز سے ادا ہوگئیں، یہ باطل محض ہے۔
(بہارشریعت،ج:۴، ص:۷۰۸،ط: مکتبۃ المدینہ)
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مروجہ قضائے عمری بے اصل اور بدعت ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔

جمعة الوداع کے روزے کا ثواب دوسرے روزوں سے زیادہ سمجھنا
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان کا آخری جمعہ ‘‘جمعۃ الوداع‘‘ ہے اور اس میں روزے کا ثواب دوسرے دنوں کے روزوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور اس دن کا روزہ رکھنے سے پچھلے روزے معاف ہوجاتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ خیال بالکل باطل اور غلط ہے ، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شیطان نے اس قسم کے خیالات لوگوں کے دِلوں میں اس لئے پیدا کیے ہیں تاکہ وہ فرائض بجالانے میں کوتاہی کریں۔(۶۳)

جمعۃ الوداع کی شرعی حیثیت
جمعہ کے دن کی خصوصی فضیلتیں احادیث سے ثابت ہیں، رمضان المبارک چونکہ خود بھی برکت اور دعاء کی قبولیت کا مہینہ ہے ،اس لئے اس ماہ کے جمعہ میں برکت اور قبولیت کی توقع زیادہ ہے، لیکن اس اعتبار سے رمضان کے تمام جمعہ برابر ہیں، آخری جمعہ کی خصوصیت نہیں ہے۔
عوام میں رمضان المبارک کا آخری جمعہ بڑی اہمیت کے ساتھ مشہور ہے، اور اس کو “جمعة الوداع” کا نام دیا جاتا ہے، لیکن احادیثِ شریفہ میں “آخری جمعہ” کی کوئی الگ سے خصوصی فضیلت ذکر نہیں کی گئی ہے۔اسی طرح بعض لوگ آخری جمعہ کے خطبے ’’ الوداع الوادع یا شہر رمضان‘‘پڑھتےہیں، اس کی بھی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ نے اس بارے میں ایک رسالہ ’’ ردع الإخوان عن محدثات آخر جمعة رمضان ‘‘لکھا ہے اور اس میں رمضان کے آخری جمعہ میں ہونے والی بدعات پر رد کیا ہے۔(۶۴)

ماہِ رمضان کی اطلاع دینے پر جہنم کی آگ حرام ہونے کی حدیث کا حکم
ماہِ رمضان آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک حدیث پھیلائی جاتی ہے کہ ’’جو بھی رمضان کی مبارک باد سب سے پہلےدے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی‘‘
واضح رہے کہ اس طرح کی کوئی حدیث چاہے ضعیف سند کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، موجود نہیں ہے،بلکہ یہ بالکل من گھڑت بات ہے، جسے جناب رسول اللہ ﷺ کی جانب نسبت کرکے پھیلایا جارہا ہے،حالانکہ کسی بات کو غلط طور پر رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے.
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نےجناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے میری جانب وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے
(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۱۰۹، ط:دارطوق النجاۃ)(۶۵)

واضح رہے کہ جس طرح غلط نسبت کرنےوالے کے لئے یہ وعید ہے، اسی طرح اس کو پھیلانےوالے کے لیے بھی یہی وعید ہے ،علامہ نووی فرماتے ہیں:
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق کوئی حدیث جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا، جھوٹا کیوں نہ ہو؟! وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔(۶۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) لسان العرب لابن منظور: (162/7، ط: دار صادر)
قال ابن دريد: لما نقلوا أسماء الشهور عن اللغة القديمة سموها بالأزمنة التي هي فيها فوافق رمضان أيام رمض الحر وشدته فسمي به.

(2) تفسیر القرطبي: (291/2، ط: دار الکتب المصري)
وقيل: إنما سمي رمضان لأنه يرمض الذنوب أي يحرقها بالأعمال الصالحة، من الإرماض وهو الإحراق، ومنه رمضت قدمه من الرمضاء أي احترقت.

(3) لسان العرب لابن منظور: (162/7، ط: دار صادر)
وشهر رمضان مأخوذ من رمض الصائم يرمض إذا حر جوفه من شدة العطش، قال الله عز وجل: شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن

(4) سنن أبي داؤد: (322/2، ط: المکتبة العصریة)
عن مجيبة الباهلية، عن أبيها، أو عمها، أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم انطلق فأتاه بعد سنة، وقد تغيرت حاله وهيئته، فقال: يا رسول الله، أما تعرفني، قال: «ومن أنت؟» قال: أنا الباهلي، الذي جئتك عام الأول، قال: «فما غيرك، وقد كنت حسن الهيئة؟»، قال: ما أكلت طعاما إلا بليل منذ فارقتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لم عذبت نفسك، ثم قال: «صم شهر الصبر، ويوما من كل شهر»، قال: زدني فإن بي قوة، قال: «صم يومين»، قال: زدني، قال: «صم ثلاثة أيام»، قال: زدني، قال: صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك "، وقال: بأصابعه الثلاثة فضمها ثم أرسلها

مسند أحمد: (رقم الحدیث: 7577، 22/13، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي عثمان النهدي، أن أبا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " صوم شهر الصبر، وثلاثة أيام من كل شهر، صوم الدهر "

(5) مسند احمد: (رقم الحدیث: 7148، 59/12، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، قال: لما حضر رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد جاءكم رمضان، شهر مبارك، افترض الله عليكم صيامه، تفتح فيه أبواب الجنة، وتغلق فيه أبواب الجحيم، وتغل فيه الشياطين، فيه ليلة خير من ألف شهر، من حرم خيرها، فقد حرم "

(6) صحیح ابن خزیمة: (رقم الحدیث: 1887، 191/3، ط: المکتب الاسلامی)
عن سلمان قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: «أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر۔۔۔۔۔ وشهر المواساة ۔۔۔۔۔

(7) الکامل لإبن عدی: (رقم الحدیث: 17004، 145/10، ط: مکتبة الرشد)
عن أنس؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا جاء شهر رمضان قال للناس: قد جاءكم شهر مطهر، تفتح فيه أبواب الجنة، وتغل فيه الشياطين، يعد المؤمن فيه العدة للصوم والصلاة، وهو نقمة للفاجر يغتنم فيها غفلات الناس، من حرم خيره فقد حرم.

(8) فتح الباری لأبن الحجر العسقلانی: (102/4، ط: دار المعرفة)
وقد ذكر أبو الخير الطالقاني في كتابه حظائر القدس لرمضان ستين اسما

(9) کتاب الدعاء للطبرانی: (رقم الحدیث: 912، 1226/2، ط: دار البشائر الإسلامية)
عن عبادة بن الصامت، رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا هؤلاء الكلمات إذا جاء رمضان، أن يقول أحدنا: اللهم سلمني من رمضان، وسلم رمضان لي، وتسلمه مني متقبلا.

(10) المعجم الاوسط للطبرانی: (رقم الحدیث: 3740، 111/4، ط: دار الحرمین)
عن واثلة بن الأسقع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «نزلت صحف إبراهيم أول ليلة من شهر رمضان، وأنزلت التوراة لست مضين من رمضان، وأنزل الإنجيل لثلاث عشرة مضت من رمضان، وأنزل الزبور، لثمان عشرة خلت من رمضان، وأنزل القرآن لأربع وعشرين خلت من رمضان
لم يرو هذا الحديث عن قتادة، إلا عمران القطان، ولا يروى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد "
تخریج حدیث:
أخرجه أحمد فی مسندہ: (191/28، رقم الحدیث: 16984، ط: مؤسسة الرسالة) والبیھقی فی شعب الأیمان: (561/3، رقم الحدیث: 2052، ط: مکتبة الرشد) و فی سننه الکبری: (317/9، رقم الحدیث: 18649، ط: دار الکتب العلمیة) وابن أبی حاتم فی تفسیرہ: (310/1، رقم الحدیث: 1649، ط: مکتبة نزار مصطفی)

(11) المعجم الکبیر للطبرانی: (رقم الحدیث: 9000، 2005/9، ط: مكتبة الرشد)
حدثنا علي بن عبد العزيز ، حدثنا أبو نعيم ، حدثنا المسعودي ، عن أبي إسحاق ، عن أبي عبيدة ، قال : قال عبد الله : سيد الشهور رمضان ، وسيد الأيام يوم الجمعة.
تخریج حدیث:
أخرجه ابن أبی شیبة فی مصنفه: (152/4، رقم الحدیث: 5552، ط: مكتبة الرشد) والبیھقی فی شعب الإیمان: (314/3، رقم الحدیث: 3638، ط: دار الكتب العلمية) وعبدالرزاق فی مصنفه: (306/4، رقم الحدیث: 7894، ط: المجلس العلمي)

(12)مجموع الفتاوى للعلامة ابن تيمية: (404/6، ط: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف)
ويقال إن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه؛ لكن هو عالم بحال أبيه متلق لآثاره من أكابر أصحاب أبيه وهذه حال متكررة من عبد الله - رضي الله عنه - فتكون مشهورة عند أصحابه فيكثر المتحدث بها ولم يكن في أصحاب عبد الله من يتهم عليه حتى يخاف أن يكون هو الواسطة فلهذا صار الناس يحتجون برواية ابنه عنه وإن قيل إنه لم يسمع من أبيه.
أوردہ الھیثمی فی مجمع الزوائد للھیثمی: (341/3، رقم الحدیث: 4777، وقال: رواه الطبراني في الكبير وأبو عبيدة لم يسمع من أبيه.

(13) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2014، 45/3، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه۔

(14) سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 3545، 445/5، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي، ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يغفر له، ورغم أنف رجل أدرك عنده أبواه الكبر فلم يدخلاه الجنة»

(15) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 1899، 25/3، ط: دار طوق النجاة)
عن ابن شهاب، قال: أخبرني ابن أبي أنس، مولى التيميين: أن أباه، حدثه أنه، سمع أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب السماء، وغلقت أبواب جهنم، وسلسلت الشياطين»

(16) مسند أحمد: (رقم الحدیث: 7148، 59/12، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، قال: لما حضر رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد جاءكم رمضان، شهر مبارك، افترض الله عليكم صيامه، تفتح فيه أبواب الجنة، وتغلق فيه أبواب الجحيم، وتغل فيه الشياطين، فيه ليلة خير من ألف شهر، من حرم خيرها، فقد حرم»

(17) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1095، 770/2، ط: دار إحیاء التراث العربي)
عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تسحروا، فإن في السحور بركة»

(18) سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 658، 39/2، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن عمها سلمان بن عامر يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فإن لم يجد تمرا فالماء فإنه طهور.

(19) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 2994، 465/4، ط: دار الجیل)
عن ابن عباس ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : عمرة في رمضان ، تعدل حجة.

(20) مرقاة المفاتیح: (1742/5، ط: دار الفکر)
وفيه دلالة على أن فضيلة العبادة تزيد بفضيلة الوقت فيشمل يومه وليله أو بزيادة المشقة فيختص بنهاره والله أعلم.

(21) عمدة القاری: (117/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)
وقال ابن الجوزي: فيه أن ثواب العمل يزيد بزيادة شرف الوقت، كما يزيد بحضور القلب وبخلوص القصد.

(22) صحیح ابن خزیمة: (رقم الحدیث: 1887، 191/3، ط: المکتب الإسلامی)
عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: «أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: " يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة "

(23) (اتحاف الخیرۃ المھرۃ للعلامة البوصیری: (رقم الحدیث: 2196، 68/3، ط: دار الوطن)
وعن سلمان الفارسي - رضي الله عنه - قال: "خطبنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آخر يوم من شعبان ۔۔۔ ". رواه الحارث بن أبي أسامة، وابن خزيمة في صحيحه ثم قال: إن صح الخبر. ومن طريقه رواه البيهقي وأبو الشيخ بن حيان.

اتحاف المھرۃ لابن الحجر العسقلانی: (رقم الحدیث: 5941، 560/5، ط: مجمع الملك فهد)
حديث (خز هب) : " يا أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم ، شهر مبارك ... " الحديث.
عن علي بن زيد بن جدعان ، عن سعيد بن المسيب ، عنه، به. وقال: إن صح الخبر. رواه البيهقي في الشعب من طرق: عن علي بن حجر ، بهذا الإسناد. ومن طريق أخرى: عن عبد الله بن بكر السهمي ، عن إياس بن عبد الغفار ، عن علي بن زيد. والأول أتم ومداره على علي بن زيد، وهو ضعيف ، وأما يوسف بن زياد فضعيف جدا ، وأما إياس بن عبد الغفار فما عرفته.
وفي سنده من صحح، وحسن له الترمذي، لكن ضعفه غيره، ومن ثم ذكره ابن خزيمة في صحيحه وعقبه بقوله إن صح.

(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن الحجر الهيتمي: 328/1، ط: دار الفكر)
قال الشيخ: وعبد العزيز بن عبد الله هذا عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات

الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: (512/6، ط: مكتبة الرشد)
أخبرنا علي بن زيد بن جدعان، ۔۔۔۔۔الخ«هذا حديث حسن صحيح

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 545، ط: دار الغرب الاسلامی)

میزان الاعتدال للذھبی: (127/3، ط: دار المعرفة)
علي بن زيد بن جدعان [م، عو] . هو على بن زيد بن عبد الله بن زهير أبي مليكة بن جذعان، أبو الحسن القرشي التيمي البصري، أحد علماء التابعين.
روى عن أنس، وأبي عثمان النهدي، وسعيد بن المسيب. وعنه شعبة، وعبد الوارث، وخلق. اختلفوا فيه، قال الجريري: أصبح فقهاء البصرة عميانا ثلاثة: قتادة، وعلى بن زيد، وأشعث الحدانى. وقال منصور بن زاذان: لما مات الحسن البصري قلنا لعلى بن زيد: اجلس مجلسه. قال موسى بن إسماعيل: قلت لحماد بن سلمة: زعم وهيب أن على بن زيد كان لا يحفظ. قال: ومن أين كان وهيب يقدر على مجالسة [على، إنما كان يجالسه] وجوه الناس. وقال شعبة: حدثنا علي بن زيد - وكان رفاعا. وقال - مرة: حدثنا على قبل أن يختلط. وكان ابن عيينة يضعفه. وقال حماد بن زيد: أخبرنا علي بن زيد - وكان يقلب الأحاديث. وقال الفلاس: كان يحيى القطان يتقى الحديث عن علي بن زيد. وروى عن يزيد بن زريع، قال: كان على بن زيد رافضيا. وقال أحمد: ضعيف. وروى عثمان بن سعيد، عن يحيى: ليس بذاك القوى. وروى عباس - عن يحيى: ليس بشئ. وقال في موضع آخر: هو أحب إلى من ابن عقيل ومن عاصم بن عبيد الله. وقال أحمد العجلي: كان يتشيع، وليس بالقوي. وقال البخاري، وأبو حاتم: لا يحتج به. وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، هو أحب إلى من يزيد بن أبي زياد. وقال الفسوي: اختلط في كبره. وقال ابن خزيمة: لا أحتج به لسوء حفظه.

تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج لابن الملقن: (477/1، ط: دار حراء)
وفيهَا عَلّي بن زيد بن جدعَان وَهُوَ حسن الحَدِيث أخرج لَهُ مُسلم مُتَابعَة

الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: (114/8، ط: مكتبة الرشد)
حَدثنا مُحمد بن علي، حَدثنا عثمان بن سعيد، قال: سألت يَحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، قال: ليس بذاك القوي.

تلخيص الذهبي: (رقم الحديث: 8543، 551/4، ط: دار الكتب العلمية)
ابن جدعان صالح الحديث

و فیه أیضاً: (رقم الحديث: 8699، 613/4، ط: دار الكتب العلمية)
إسناده قوي

العلل لابن أبي حاتم: (110/3، ط: مطابع الحميضي)
فقال: هذا حديث منكر؛ غلط فيه عبد الله ابن بكر ؛ إنما هو: أبان بن أبي عياش، فجعل عبدالله بن بكر «أبان» : «إياس»

الضعفاء الكبير للعقيلي: (35/1، ط: دار المكتبة العلمية)
وذكر حديثا طويلا في فضل شهر رمضان قد روي من غير وجه ليس له طريق يثبت ثبت


(24) الاذكار للنووي: (ص: 31، ط: مؤسسة الرسالة)
اعلم أنه ينبغي لمن بلغه شئ في فضائل الأعمال أن يعمل به ولو مرة واحدة ليكون من أهله، ولا ينبغي أن يتركه مطلقا بل يأتي بما تيسر منه لقول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث المتفق على صحته : " إذا أمرتكم بشئ فأتوا منه ما استطعتم ".
[ فصل ] : قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم : يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا.

القول البدِيع للسخاوي: (ص: 472، ط: مؤسسة الريان)
قال شيخ الإسلام أبو زكريا النووي - رحمه الله - في الأذكار قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً ... وقد سمعت شيخنا مراداً يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من أنفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني أن يكون مندرجاً تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلاً، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يقله

(25) شعب الإیمان للبیھقی: (رقم الحدیث: 3334، 221/5، ط: مکتبة الرشد)
عن عبد الله بن مسعود، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا كان أول ليلة من شهر رمضان فتحت أبواب الجنان فلم يغلق منها باب واحد الشهر كله، وغلقت أبواب النار فلم يفتح منها باب واحد الشهر كله، وغلت عتاة الجن، ونادى مناد من السماء كل ليلة إلى انفجار الصبح، يا باغي الخير يمم وأبشر، ويا باغي الشر أقصر، وأبصر هل من مستغفر نغفر له، هل من تائب نتوب عليه، هل من داع نستجيب له، هل من سائل نعطي سؤله، ولله عز وجل عند كل فطر من شهر رمضان كل ليلة عتقاء من النار ستون ألفا، فإذا كان يوم الفطر أعتق مثل ما أعتق في جميع الشهر ثلاثين مرة ستين ألفا ستين ألفا "

(26) مسند أحمد: (رقم الحدیث: 7917، 295/13، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أعطيت أمتي خمس خصال في رمضان، لم تعطها أمة قبلهم: خلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك، وتستغفر لهم الملائكة حتى يفطروا، ويزين الله عز وجل كل يوم جنته، ثم يقول: يوشك عبادي الصالحون أن يلقوا عنهم المئونة والأذى ويصيروا إليك، ويصفد فيه مردة الشياطين، فلا يخلصوا فيه إلى ما كانوا يخلصون إليه في غيره، ويغفر لهم في آخر ليلة " قيل: يا رسول الله، أهي ليلة القدر؟ قال: «لا، ولكن العامل إنما يوفى أجره إذا قضى عمله»

(27) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 7492، 143/9، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يقول الله عز وجل: الصوم لي وأنا أجزي به، يدع شهوته وأكله وشربه من أجلي، والصوم جنة، وللصائم فرحتان: فرحة حين يفطر، وفرحة حين يلقى ربه، ولخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك "

(28) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1095، 770/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تسحروا، فإن في السحور بركة»

(29) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1096، 770/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب، أكلة السحر»

(30) سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 2344، 302/2، ط: المکتبة العصریة)
عن العرباض بن سارية قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السحور في رمضان، فقال: «هلم إلى الغداء المبارك»

(31) فتح الباری لأبن الحجر العسقلانی: (139/4، ط: دار المعرفة)
وقد نقل بن المنذر الإجماع على ندبية السحور.

(32) الھدایة: (127/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
والمستحب تأخيره لقوله عليه الصلاة والسلام " ثلاث من أخلاق المرسلين تعجيل الإفطار وتأخير السحور والسواك " " إلا أنه إذا شك في الفجر "

(33) الفتاوی الھندیة: (193/1، ط: دار الفکر)
تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع، وهو طالع أو أفطر على ظن أن الشمس قد غربت، ولم تغرب قضاه، ولا كفارة عليه؛ لأنه ما تعمد الإفطار كذا في محيط السرخسي.

(34) سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 766، 129/2، ط: دار الغرب الإسلامی)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للصائم فرحتان: فرحة حين يفطر، وفرحة حين يلقى ربه.

(35) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1643، 147/3، ط: دار الجیل)
عن جابر ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن لله عند كل فطر عتقاء ، وذلك في كل ليلة.

(36) سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 2355، 305/2، ط: المکتبة العصریة)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر، لأن اليهود، والنصارى يؤخرون»

(37) سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 658، 39/2، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن عمها سلمان بن عامريبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فإن لم يجد تمرا فالماء فإنه طهور.

(38) سنن أبی داؤد: (باب القول عند الافطار، رقم الحدیث: 2358، 306/2، ط: المکتبة العصریة)
عن معاذ بن زهرة، أنه بلغه " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أفطر قال: «اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت»

(39) سنن أبی داؤد: (باب القول عند الافطار، رقم الحدیث: 2357، 306/2، ط: المکتبة العصریة)
حدثنا مروان يعني ابن سالم المقفع، قال: «رأيت ابن عمر يقبض على لحيته، فيقطع ما زاد على الكف» وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا أفطر قال: «ذهب الظمأ وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله»

(40) مرقاة المفاتيح: (426/4، ط: دار الکتب العلمیة)
اما ما اشتھر علی الالسنة ’’اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت‘‘ فزیادة و بک امنت لا اصل لہ و ان کان معناہ صحیحا و کذا زیادة و علیک توکلت و لصوم غد نویت۔

بذل المجھود شرح ابی داؤد: (499/8، ط: مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث و الدراسات الاسلامیة)
قال ابن عمر (کان النبی ﷺ اذا افطر قال) بعد الافطار: ذھب الظماء )بفتحتین بلا مد، العطش (وابتلت العروق و ثبت الاجر ان شاء اللہ)… عن معاذ بن زھرة الضبی ، التابعی، ارسل عن النبیﷺ فی القول عند الافطار ولکن وقع عند ابی داؤد فی السنن و فی المراسیل عن معاذ بن زھرة انہ بلغہ ان النبی ﷺ ذکرہ ابن حبان فی الثقات (انہ بلغه ان النبی ﷺ کان اذا افطر قال)ای دعا: “اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ”۔

قاموس الفقه: (296/4، ط: زمزم ببلیشرز)

(41) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2014، 45/3، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه۔

(42) القرآن الکریم: (الإسراء، الایة: 79)
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ ٭ۖ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا o

(43) الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (232/2، ط: دار السلاسل)
التهجد لا يكون إلا بعد نوم . ولكن يطلقه كثير من الفقهاء على صلاة الليل مطلقا .

الفتاوی الھندیة: (115/1، ط: دار الفکر)
والصحيح أن وقتها ما بعد العشاء إلى طلوع الفجر قبل الوتر وبعده

(44) الفتاوی الهندیة: (116/1، ط: دار الفکر)
والجماعة فيها سنة على الكفاية

(45) الفتاوی الهندیة: (117/1، ط: دار الفکر)
السنة في التراويح إنما هو الختم مرة فلا يترك لكسل القوم، كذا في الكافي.

(46) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 1147، 53/2، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه أخبره: أنه سأل عائشة رضي الله عنها، كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: «ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي أربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا»قالت عائشة: فقلت يا رسول الله: أتنام قبل أن توتر؟ فقال: «يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي»

(47) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 4998، 186/6، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة، قال: «كان يعرض على النبي صلى الله عليه وسلم القرآن كل عام مرة، فعرض عليه مرتين في العام الذي قبض فيه ۔۔۔»

(48) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 6، 8/1، ط: دار طوق النجاة)
عن ابن عباس، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن، فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة»

(49) سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 796، 152/2، ط: دار الغرب الإسلامی)
عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجتهد في العشر الأواخر ما لا يجتهد في غيرها.

(50) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2024، 47/3، ط: دارطوق النجاۃ)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره، وأحيا ليله، وأيقظ أهله»

(51) سنن الدار قطنی: (رقم الحدیث: 2362، 186/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يعتكف في العشر الأواخر من شهر رمضان، ثم لم يزل على ذلك حتى توفاه الله عز وجل»

(52) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2025، 47/3، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان»

(53) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 2994، 465/4، ط: دار الجیل)
عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعكف الذنوب ، ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها.

(54) مصباح الزجاجة للبوصیری: (276/1، ط: دار الجنان)
هذا إسناد فيه فرقد بن يعقوب السبخي وهو ضعيف.

(55) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2020، 47/3، ط: دار طوق النجاة)
عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في العشر الأواخر من رمضان ويقول: «تحروا ليلة القدر في العشر الأواخر من رمضان»

(56) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 35، 16/1، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يقم ليلة القدر، إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه»

(57) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 3850، 368/5، ط: دار الجیل)
عن عائشة ، أنها قالت : يا رسول الله ، أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ قال : تقولين : اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني.

(58) البحر الرائق: (232/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد لأن ذلك إسراف سواء كان ذلك في رمضان أو غيره ولا يزين المسجد بهذه الوصية. اه.
ومقتضاه منع الكثرة الواقعة في رمضان في مساجد القاهرة ولو شرط الواقف لأن شرطه لا يعتبر في المعصية وفي القنية وإسراج السرج الكثيرة في السكك والأسواق ليلة البراءة بدعة۔

(59) غمز عيون البصائر في شرح الأشباه و النظائر: (527/2، ط: إدارۃ القرآ ن)
ومن البدع المنكرة ما يفعل في كثير من البلدان من إيقاد القناديل الكثيرة في ليالي معروفة في السنة كليلة النصف من شعبان خصوصا بيت المقدس فيحصل بسبب ذلك مفاسد كثيرة منها مضاهاة المجوس في الاعتبار بالنار والإكثار منها، ومنها ما يترتب على ذلك في كثير من المساجد من اجتماع الصبيان وأهل البطالة ولعبهم ورفع أصواتهم وامتهانهم بالمساجد وانتهاك حرمتها وحصول أوساخ فيها وغير ذلك من المفاسد التي يجب صيانة المساجد عنها ومن المفاسد ما يجعل في الجوامع من إيقاد القناديل وتركها إلى أن تطلع الشمس وترتفع وهو من فعل اليهود في كنائسهم وأكثر ما يفعل ذلك في العيد وهو حرام

(60) الدر المختار مع رد المحتار: (49/2، ط: دار الفکر)
(ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر، ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع نهر.
(قوله على سبيل التداعي) هو أن يدعو بعضهم بعضا كما في المغرب، وفسره الواني بالكثرة وهو لازم معناه.(قوله أربعة بواحد) أما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره، وثلاثة بواحد فيه خلاف بحر عن الكافي وهل يحصل بهذا الاقتداء فضيلة الجماعة؟ ظاهر ما قدمناه من أن الجماعة في التطوع ليست بسنة يفيد عدمه تأمل. بقي لو اقتدى به واحد أو اثنان ثم جاءت جماعة اقتدوا به. قال الرحمتي: ينبغي أن تكون الكراهة على المتأخرين. اه.

(61) الموضوعات الکبری: (ص: 356، ط: مؤسسة الرسالة)
حدیث من قضیٰ صلٰوۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابرًا لکل صلٰوة فائتة فی عمره الٰی سبعین سنة باطل قطعًا لانه مناقضِ للاجماع علٰی ان شیئًا من العبادات لایقوم مقام فائتة سنواتٍ اھ۔

(62) الفوائد المجموعة فی الأحادیث الموضوعة: (ص: 54، ط: دار الکتب العلمیة)
حديث: "من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته.هذا: موضوع لا إشكال فيه ۔

(63) آپ کے مسائل اور ان کا حل: (618/4، ط: مکتبة لدھیانوی)

(64) فتاوی محمودیة: (296/8، ط: إدارۃ الفاروق)

(65) صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 109، 33/1، ط: دار طوق النجاۃ)
عن سلمة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من يقل علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار»

(66) (شرح النووی علی مسلم: (65/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
وأما فقه الحديث ففيه تغليظ الكذب والتعرض له وأن من غلب على ظنه كذب ما يرويه فرواه كان كاذبا وكيف لا يكون كاذبا وهو مخبر بما لم يكن

کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144004201614 و ایضا: 143909200184

Print Views: 3381

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.