سوال:
اسلام میں ازار وغیرہ کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا کیا حکم ہے؟ بعض اوقات کوئی پینٹ یا پاجامہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے تو نہیں جاتا، لیکن ٹخنوں سے زیادہ اوپر بھی نہیں ہوتا تو اسی صورت میں کیا حکم ہوگا؟ نیز اس بات کی وضاحت بھی فرمادیں کہ پینٹ وغیرہ کو کس حد تک رکھا جاسکتا ہے؟ کیا ٹخنے کی ہڈی تھوڑی سی بھی چھپی ہو تو گناہ ہوگا یا صرف ہڈی سے نیچے لے جانا منع ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مردوں کے لیے شلوار، تہبند، پینٹ اور پتلون کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھ کر ٹخنوں کو ڈھانکنا مکروہ تحریمی ہے، خواہ نماز کی حالت ہو یا نماز کے علاوہ، ہر حال میں ناجائز ہے، جناب رسول اللہ ﷺ نے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر سخت وعید بیان فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ٹخنوں کے نیچے ازار باندھا، وہ دوزخ میں ہوگا"۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5778)
بہتر یہ ہے کہ آدمی کا ازار وغیرہ پنڈلی کے درمیانے حصہ تک ہو، اور اس سے نیچے ٹخنوں تک رکھنا بلا کراہت جائز ہے، لیکن ٹخنے کی ہڈی کو ڈھانکنا جائز نہیں ہے، اس لئے ازار وغیرہ اس طرح ہونا چاہیے کہ ٹخنے کی ہڈی پوری طرح کھلی ہوئی ہو، البتہ اگر بلا ارادہ غیر اختیاری طور پر ازار وغیرہ ڈھیلا ہو جائے اور ٹخنہ یا اس کا کچھ حصہ چھپ جائے، تو اس سے آدمی گناہگار نہیں ہوگا، لیکن اس صورت میں بھی پتا لگنے پر فورا ازار اوپر کرنا ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 5778، ط: دار طوق النجاۃ)
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار"
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 4093، ط: دار الرسالة العالمیة)
عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنِ الْإِزَارِ، فَقَال: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، وَلَا حَرَجَ أَوْ لَا جُنَاحَ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، فَهُوَ فِي النَّارِ مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ.
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 4084، ط: دار الرسالة العالمیة)
عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: لَا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلَامُ فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ اعْهَدْ إِلَيَّ، قَالَ: لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا، قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً، قَالَ: وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ.
تکملة فتح الملهم: (123/4، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
والحاصل۔ عند ھذا العبد الضعیف عفااللہ عنہ۔ ان العلة الاصلیة من وراء تحریم الاسبال ھی الخیلاء، کماصرح به رسول اللهﷺ فی حدیث الباب و لکن تحقق الخیلاء امر مخفی ربما لایطلع علیه من ابتلی به فاقیم سببه مقام العلة و ھو الاسبال۔۔۔۔وعلی ھذا کلما تحقق الاسبال تحت اللکعبین جاء المنع الا فی غیر حالة الاختیار فان انتفاء الخیلاء فی ذلک متیقن لان الخیلاء لاتحقق بفعل لا قصد للعبد فیه و من ھذہ الجھة اجاز رسول الله ﷺ الاسبال لابی بکر وقال له " لست ممن یصنع خیلاء"۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی