سوال:
قادیانیوں کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں، برائے مہربانی جواب دے کر رہنمائی فرمائیں:
۱) 1974ء کے آئین کے تحت قادیانی غیر مسلم قرار پائے تھے، اب وہ قادیانی جو 1974ء کے بل کے منظور کرتے وقت موجود تھے، ان کی اولاد بھی غیر مسلم قرار پائے گی یا مرتد کہلائے گی؟
۲) کیا کسی قادیانی شخص کو مسلمان کرنے کی غرض سے دین کی دعوت و تبلیغ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: ۱) واضح رہے کہ وہ قادیانی جو پیدائشی طور پر قادیانی چلے آرہے ہیں، اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے کافر اور "زندیق" ہیں۔ "زندیق" وہ کافر ہے جو کفریہ عقائد اختیار کرنے کے باوجود خود کو مسلمان ظاہر کرے، لہذا قادیانی بھى چونکہ کفریہ عقائد رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اپنے علاوہ تمام صحیح العقیدہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، اس لیےقادیانی خود بھی کافر اور "زندیق" ہیں اور ان کى اولاد بھى کافر اور "زندیق" ہیں۔
نیز ان کا کافر ہونا اپنے کفریہ عقیدے کى بنا پر ہے، لہذا وہ اپنے اس کفریہ عقیدے کى وجہ سے 1974ء کے "آئین پاکستان " کى تشکیل سے پہلے بھى کافر تھے، بعد میں بھى وہ کافر اور زندیق کہلاتے ہیں، آئینِ پاکستان میں تو ان کى پاکستان میں شہریت کى شناخت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ یہاں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر رہیں گے۔
اگر کوئى شخص (معاذ اللہ) اسلام کو چھوڑ کر "قادیانیت" اختیار کر لے تو وہ "مرتد" بھی ہے اور "زندیق" بھی ہے، اور اس کی اولاد بالغ ہونے تک اپنے والدین کے تابع ہو کر "حکما مرتد" کہلائے گی، جب وہ بالغ ہو جائے اور پھر بھی وہ "قادیانیت" کو اختیار کیے رکھے، اسلام کو قبول نہ کرے تو وہ "مرتد" نہیں کہلائے گی، بلکہ وہ کافر اور زندیق کہلائے گی۔ اسی طرح "مرتد" کی اولاد کی اولاد بھی "مرتد" نہیں کہلائے گی، بلکہ وہ کافر اور "زندیق" کہلائے گی۔
۲) قادیانیوں کو بھی دینِ اسلام کی دعوت دینی چاہیے، بشرطیکہ دعوت دیتے ہوئے قادیانیوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، ورنہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔
قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے محقق العصر حضرت مولانا یوسف صاحب لدھیانویؒ کے رسالے: "قادیانیوں کو دعوتِ اسلام" سے استفادہ کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الإرشاد إلى سبيل الرشاد: (ص: 466، ط: مؤسسة الرسالة)
"والزنديق هو: الذي يُظهر الإيمان ويستر الكفر".
الدر المختار مع رد المحتار: (241/4، ط: الحلبي)
"(و) كذا الكافر بسبب (الزندقة) لا توبة له، وجعله في الفتح ظاهر المذهب، لكن في حظر الخانية الفتوى على أنه (إذا أخذ) الساحر أو الزنديق المعروف الداعي (قبل توبته) ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل، ولو أخذ بعدها قبلت.
(قوله المعروف) أي بالزندقة الداعي أي الذي يدعو الناس إلى زندقته. اه. ح. فإن قلت: كيف يكون معروفا داعيا إلى الضلال، وقد اعتبر في مفهومه الشرعي أن يبطن الكفر. قلت: لا بعد فيه، فإن الزنديق يموه كفره ويروج عقيدته الفاسدة ويخرجها في الصورة الصحيحة، وهذا معنى إبطال الكفر، فلا ينافي إظهاره الدعوى إلى الضلال وكونه معروفا بالإضلال اه".
الفتاوى الھندیة: (253/2، ط: رشیدية)
"إذا ارتد المسلم عن الإسلام والعياذ بالله عرض عليه الإسلام، فإن كانت له شبهة أبداها كشفت إلا أن العرض على ما قالوا غير واجب بل مستحب كذا في فتح القدير ويحبس ثلاثة أيام فإن أسلم وإلا قتل هذا إذا استمهل، فأما إذا لم يستمهل قتل من ساعته ولا فرق في ذلك بين الحر والعبد كذا في السراج الوهاج".
الهداية :(382/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
" وأما المرتدون فيوادعهم الإمام حتى ينظر في أمرهم " لأن الإسلام مرجو منهم فجاز تأخير قتالهم طمعا في إسلامهم".
البحر الرائق: (86/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"(قوله: والمرتدين بلا مال، وإن أخذ لم يرد) أي نصالح المرتدين حتى ننظر في أمورهم؛ لأن الإسلام مرجو منهم فجاز تأخير قتالهم طمعا في إسلامهم ولا نأخذ عليه مالا؛ لأنه لا يجوز أخذ الجزية منهم، وإن أخذه لم يرده؛ لأنه مال غير معصوم وأشار إلى أنه يجوز الصلح مع أهل البغي بالأولى ولا يؤخذ منهم شيء وصرح الشارح بأن أموالهم معصومة فظاهره أنه إذا أخذ شيء لأجل الصلح يرد عليهم وفي فتح القدير ويرد عليهم بعدما وضعت الحرب أوزارها ولا يردها حال الحرب؛ لأنه إعانة لهم. اه. وأطلق في جواز صلح المرتدين وهو مقيد بما إذا غلبوا على بلدة وصار دارهم دار الحرب وإلا فلا؛ لأن فيه تقرير المرتد على الردة وذلك لا يجوز ولذا قيده الفقيه أبو الليث بما ذكرنا كذا في الفتح".
الدر المختار مع رد المحتار: (256/4، ط: دار الفکر- بیروت)
"(زوجان ارتدا ولحقا فولدت) المرتدة (ولدا وولد له) أي لذلك المولود (ولد فظهر عليهم) جميعا (فالولدان فيء) كأصلهما (و) الولد (الأول يجبر) بالضرب (على الإسلام) وإن حبلت به ثمة لتبعيته لأبويه (لا الثاني) لعدم تبعية الجد على الظاهر فحكمه كحربي".
"(قوله فالولدان فيء كأصلهما ) هذا ظاهر في الولد ، فإن أمه تسترق والولد يتبع أمه في الحرية والرق .أما ولد الولد فلا يتبعها لأنه لا يتبع الجد كما يأتي وهذه جدة في حكم الجد ، ولا أباه لأن أباه تبع والتبع لا يستتبع غيره كما يأتي. وأجيب بأنه تبع لأمه الحربية، وفيه أنه قد تكون أمه ذمية مستأمنة، فالمناسب كون العلة في كونه فيئا أن حكمه حكم الحربي كما يأتي فافهم ( قوله والولد الأول يجبر بالضرب ) أي والحبس نهر أي بخلاف أبويه فإنهما يجبران بالقتل ( قوله وإن حبلت به ثمة ) أشار إلى أنها لو حبلت به".
فتح الباري لابن حجر: (291/12، ط: دار المعرفة- بيروت)
"وقد ذكر ابن بطال عن المهلب قال: التألف إنما كان في أول الإسلام إذا كانت الحاجة ماسة لذلك لدفع مضرتهم، فأما إذ أعلى الله الإسلام فلا يجب التألف، إلا أن تنزل بالناس حاجة لذلك فلإمام الوقت ذلك".
(مستفاد از "فتاوى ختم نبوت" مرتبہ: حضرت مفتى سعید احمد جلالپورى شہید رحمہ اللہ، طبع: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی