سوال:
میں نے سنا ہے کہ زکوۃ ادا کرتے وقت اس بات کی تھوڑی تحقیق ضروری ہے کہ جس کو زکوۃ ادا کی جارہی ہے وہ واقعی میں ضرورت مند بھی ہو۔ اب بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ضرورت مند دکھائی دیتا ہے کہ وہ کچھ بیچ رہا ہے یا ٹھیلے والا ہے اور ضروت مند دکھائی دیتا ہے، ایسیے میں اس سے پوچھ گچھ کرنا اور اس کی ضرورت مند ہونے کی تحقیق کرنا، جبکہ زکوۃ کی رقم بھی تھوڑی ہو، تھوڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں بغیر تحقیق کے زکوۃ کی معمولی رقم دی جا سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ معلوم ہونے کے باوجود قصداً کسی غیر مستحق کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، تاہم اگر ممکنہ ذرائع سے تحقیق کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دینے والے شخص کو چاہیے کہ وہ علامات اور حالات کو دیکھتے ہوئے خود غور و فکر کرکے فیصلہ کرے اور غور و فکر کے نیتجے میں جس کے بارے میں اُسے مستحق زکوٰۃ ہونے کا غالب گمان ہوجائے اور اس کا دل مطمئن ہو جائے تو اُس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں محض ظاہری حالت دیکھ کر اگر آپ کو اس کے مستحق زکوۃ ہونے کا غالب گمان ہوجائے اور آپ کا دل مطمئن ہو جائے تو آپ اُسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں، اس کے بارے میں لوگوں سے یا اس شخص سے پوچھنا (جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہو) شرعاً ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (513/1، ط: دار الفکر)
لو دفع بتحر فبان أنه ليس بمصرف أجزأه عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى كذا في البحر الرائق.
الدر المختار: (352/2، ط: دار الفکر)
دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا (فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنا أعادها)
رد المحتار: (352/2، ط: دار الفکر)
قوله: دفع بتحر) أي اجتهاد وهو لغة الطلب والابتغاء، ويرادفه التوخي إلا أن الأول يستعمل في المعاملات، والثاني في العبادات. وعرفا طلب الشيء بغالب الظن عند عدم الوقوف على حقيقته نهر (قوله: لمن يظنه مصرفا) أما لو تحرى فدفع لمن ظنه غير مصرف أو شك ولم يتحر لم يجز حتى يظهر أنه مصرف فيجزيه في الصحيح خلافا لمن ظن عدمه، وتمامه في النهر.
وفيه: واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (266/2، ط: دار الكتاب الإسلامي)
(قوله ولو دفع بتحر فبان أنه غني أو هاشمي أو كافر أو أبوه أو ابنه صح ولو عبده أو مكاتبه لا) لحديث البخاري «لك ما نويت يا زيد ولك ما أخذت يا معن» حين دفعها زيد إلى ولده معن وليس المراد بالتحري الاجتهاد بل غلبة الظن بأنه مصرف بعد الشك في كونه مصرفا وإنما قلنا هذا؛ لأنه لو دفع باجتهاد دون ظن أو بغير اجتهاد أصلا أو بظن أنه بعد الشك ليس بمصرف ثم تبين المانع فإنه لا يجزئه وكذا لو لم يتبين شيء فهو على الفساد حتى يتبين أنه مصرف، ولو دفع إلى من يظن أنه ليس بمصرف ثم يتبين أنه مصرف يجزئه.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی