سوال:
میں حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا سوال یہ ہے کہ داڑھی دائیں بائیں اطراف جہاں سے ڈاڑھی شروع ہوتی ہے وہاں سے ایک مشت سے کم رکھنے میں کوئی گناہ تو نہیں جیسا کہ میں نے کچھ حنفی مفتی حضرات کو رکھے دیکھا ہے؟
برائے مہربانی حدیث کے حوالے اور اس کی روشنی میں وضاحت کر دیں کہ کن حالات میں ایسا کرنا جائز ہے؟
جزاک اللہ خیر
جواب: چہرے کے جو بال شرعاً داڑھی میں شامل ہیں، ان کو منڈوانا، کتروانا یا ایک مشت سے کم کاٹنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، چاہے یہ بال دائیں بائیں طرف جبڑے کی ہڈی پر ہوں یا نیچے ٹھوڑی کی جانب ہوں۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کن پٹی کی ہڈی کے نیچے دونوں کانوں کے سامنے کا حصہ داڑھی میں شامل ہے اور اس سے اوپر والا حصہ داڑھی میں شامل نہیں، اس لیے نیچے والے حصے کے بال کاٹنا کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے، البتہ کانوں کے سامنے کی داڑھی کے بال عام طور پر ایک مشت تک نہیں پہنچتے، اس لیے کسی کے یہ بال کم دیکھ کر اس کے بارے میں داڑھی کاٹنے کا گمان کرنا غلط ہے، نیز عام حالات میں داڑھی رکھنے کا یہی حکم ہے، تاہم اگر کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے کوئی معتمد دیانت دار ڈاکٹر داڑھی کاٹنے کا مشورہ دے یا کوئی اور عذر ہو تو اس کے بارے میں اسی وقت اہل فتوی علماء کرام سے رجوع کرلیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (2815/7، ط: دار الفكر)
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خالفوا المشركين: أوفروا اللحى وأحفوا الشوارب ". وفي رواية: «أنهكوا الشوارب وأعفوا اللحى»۔
رد المحتار: (100/1، ط: دار الفكر)
(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.
وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض بحر.
الفتاوى الهندية: (358/5، ط: دار الفكر)
ولا بأس إذا طالت لحيته أن يأخذ من أطرافها ولا بأس أن يقبض على لحيته فإن زاد على قبضته منها شيء جزه وإن كان ما زاد طويلة تركه كذا في الملتقط.
والقص سنة فيها وهو أن يقبض الرجل لحيته فإن زاد منها على قبضته قطعه كذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الآثار عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قال وبه نأخذ كذا في محيط السرخسي.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی