سوال:
السلام علیکم
مفتی صاحب !
چاند کے بارے میں جو مشہور ہے کہ مغرب میں چاند نظر آجائے مشرق والے کو روزہ رکھنا چاہئے، اس بارے میں لوگ اکثر متفرق ہوتے ہیں، کوئی ملک کے اعلان سے پہلے روزہ رکھتا ہے، کوئی عید پہلے مناتے ہیں ۔ اس بارے میں مفصل مدلل مسئلہ مطلوب ہے ۔
جزاک اللہ
جواب: چاند کے بارے میں اصول یہ ہے کہ " چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار یعنی عید کرو، جیسا کہ صحیح بخاری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاتصوموا حتّی تروہُ ولاتفطروا حتّی تروہ فإن غمَّ علیکم فاقدروا لہ․ (بخاری ج۱/۲۵۶)
ترجمہ:
روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو )۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک جگہ پر چاند نظر آنے پر دوسری جگہ چاند نظر آنے کا فیصلہ کیا جائے گا یا نہیں ؟
واضح رہے کہ چاند تو اللہ تعالی نے ایک ہی پید ا فرمایا ہے، لیکن اس کے دِکھنے میں اختلاف ہوتا ہے، چنانچہ ایک دن وہ بعض جگہوں پر تو نظر آتا ہے، اور بعض جگہوں پر نظر نہیں آتا، یہ ایک قدرتی اختلاف ہے کہ کسی جگہ ایک دن پہلے نظر آجاتا ہے اور کسی جگہ ایک دن کے بعد۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ سورج کے ایک ہونے کے باوجود کسی جگہ فجرکی نماز ادا کی جارہی ہے اور کسی جگہ ظہرکی نماز، توکسی جگہ عصر اور مغرب کی نماز پڑھی جارہی ہے، چناں چہ سعودی عرب میں صبح صادق ہونے سے پاکستان والوں کے لیے فجر کی نمازپڑھنا جائز نہیں ہے، بالکل اسی طریقے سے جہاں چاند نظر آیا ہے، وہاں کے لوگوں کے لیے رمضان اور عید منانا تو جائز ہے، لیکن دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے۔
یہ کہنا کہ مغرب میں چاند نظر آجائے تو مشرق والوں کو روزہ رکھنا چاہیئے:
یہ بات درست نہیں ہے، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین کے زمانے میں رمضان و عید مدینہ میں کسی روز تو مکہ میں کسی اور روز، شام میں کسی روز تو عراق میں کسی اور روز ہوتی تھی۔
لما فی الترمذی
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.(كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء لكل اهل بلد رؤيتهم ،حدیث نمبر: 693)
ترجمہ:
محمد بن ابی حرملہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے کریب نے خبر دی کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، چنانچہ میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ رضی الله عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کر لیں، یا ہم ۲۹ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء لكل اهل بلد رؤيتهم، رقم الحدیث: 693)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.
آلات جدیدہ کے شرعی احکام للشفیع العثمانی: (ص: 188)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی