سوال:
مفتی صاحب! آج کل مساجد میں فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھنے کے بعد قنوت نازلہ پڑھی جارہی ہے، اس میں مقتدی حضرات امام کے پیچھے کیا پڑھیں گے اور اس دوران مقتدی اور امام دعا کی طرح ہاتھ اٹھائیں گے یا کیا کریں گے؟
جواب: جب مسلمانوں پر قومی یا اجتماعی طور پر کوئی سخت مصیبت اور حادثہ پیش آجائے، جیسے: دشمن کا حملہ آور ہونا یا کسی وبا کا پھیل جانا وغیرہ تو ایسی صورت میں فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد "قنوت نازلہ" پڑھنا مسنون ہے۔ اس موقع پر امام کو چاہیے کہ وہ بلند آواز سے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتا رہے۔ اس دوران دعا کے لیے ہاتھ نہ اٹھائے جائیں، بلکہ ہاتھوں کو نیچے کی طرف لٹکا کر کھلا رکھا جائے، البتہ اگر کوئی دونوں ہاتھ باندھ لے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم چونکہ یہ قومہ کا محل ہے اور قومہ میں ہاتھ باندھنا مسنون نہیں ہے، لہذا قنوت نازلہ کے دوران ہاتھ کھلے رکھنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (11/2، ط: دار الفكر)
وقال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية، فإن وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به، فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ... اه وهو صريح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غيرها من الصلوات الجهرية أو السرية. ومفاده أن قولهم بأن القنوت في الفجر منسوخ معناه نسخ عموم الحكم لا نسخ أصله كما نبه عليه نوح أفندي، وظاهر تقييدهم بالإمام أنه لا يقنت المنفرد، وهل المقتدي مثله أم لا؟ وهل القنوت هنا قبل الركوع أم بعده؟ لم أره. والذي يظهر لي أن المقتدي يتابع إمامه إلا إذا جهر فيؤمن وأنه يقنت بعد الركوع لا قبله، بدليل أن ما استدل به الشافعي على قنوت الفجر وفيه التصريح بالقنوت بعد الركوع حمله علماؤنا على القنوت للنازلة، ثم رأيت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنه بعده؛ واستظهر الحموي أنه قبله والأظهر ما قلناه، والله أعلم.
فتاوی محمودیه: (178/7، ط: ادارۃ الفاروق)
جواهر الفقه: (445/2، ط: مکتبه دار العلوم کراتشي)
انعام الباری: (201/4، ط: مکتبة االحراء)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی