سوال:
کیا میں اپنے بیٹے کا نام محمد شاہ زین یا محمد شاہ میر رکھ سکتا ہوں؟
جواب: "شاه" اور "میر" یہ دونوں در حقیقت فارسی زبان کے الفاظ ہیں، "شاہ" کے معنی "بادشاہ" اور "میر" کے معنی "سردار" کے ہیں، جبکہ "زین" (زا کے زبر کے ساتھ) عربی زبان میں"خوبصورتی" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس طرح "محمد شاہ زین" کے معنی ہوں گے: "محمد خوبصورتی کے بادشاہ"، اور "محمد شاہ میر" کے معنی ہوں گے: "محمد سرداروں کے سردار"، لہذا یہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ مناسب یہ ہے کہ اتنا طویل مرکب نام رکھنے کے بجائے کوئی مفرد اور مختصر نام رکھا جائے، نیز جس شخص کے یہ نام رکھے جارہے ہیں، اس کی نسبت سے ان ناموں میں مبالغہ بھی پایا جارہا ہے اور حدیث میں مبالغہ آمیز نام رکھنے کو ناپسند کیا گیا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ انبیاء، صحابہ کرام اور تابعین کے ناموں میں سے کوئی نام یا کوئی اور مناسب معنی والا نام رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند البزار: (رقم الحدیث: 8540، 15/176، ط: مکتبة العلوم و الحکم)
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (11/311، ط: دار السلاسل)
الأصل جواز التسمية بأي اسم إلا ما ورد النهي عنه.
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2143)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ ". زَادَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ : " لَا مَالِكَ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ". قَالَ الْأَشْعَثِيُّ : قَالَ سُفْيَانُ : مِثْلُ شَاهَانْ شَاهْ. وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : سَأَلْتُ أَبَا عَمْرٍو عَنْ أَخْنَعَ، فَقَالَ : أَوْضَعَ .
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی