سوال:
حضرت ! رمضان میں قرآن کا ختم کرنا آسَان ہے ، لیکن اگر ترجمہ اور مختصر تفسیر كے ساتھ پڑھا جائے تو شاید ختم نہ ہو پائے، ایک بندے نے مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ کا " آسَان ترجمہ قرآن " شروع کیا ہوا ہے، کیا وہ رمضان میں صرف قرآن ختم کرے یا ترجمہ کے ساتھ ختم کرے، جو كہ لمبا ہو جائیگا، رہنمائی فرما دیجئے کہ کونسا عمل بہتر ہے؟
جواب: اگر وقت میں تنگی ہو، تو قرآن کریم کی تلاوت کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے اور کم از کم ایک قرآن پاک کا ختم رمضان کے مہینے میں کرنا چاہیے، پھر اگر فرصت ملے تو قرآن کریم کا ترجمہ اور مختصر تفسیر پڑھ لینی چاہیے، بہتر تو یہ ہے کہ رمضان میں مکمل قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا جائے، ورنہ جتنا ہو جائے وہ باعث ہدایت و ثواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 1902، 26/3، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، أخبرنا ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان جبريل عليه السلام يلقاه كل ليلة في رمضان، حتى ينسلخ، يعرض عليه النبي صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل عليه السلام، كان أجود بالخير من الريح المرسلة».
شعب الایمان: (فصل في الاستكثار من القراءة في شهر رمضان، و ذلك لأنه شهر القرآن، 521/3، ط: الدار السلفیة)
عن محمد بن ذكوان، قال: سمعت عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، " عن عبد الله بن مسعود أنه كان يقرأ القرآن في الجمعة إلى الجمعة وفي رمضان يختمه في كل ثلاث "
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی