عنوان: روزے کو توڑنے اور مکروہ کردینے والی چیزیں(1501-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! روزہ کن کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟ موٹی موٹی ساری چیزیں ذرا تفصیل سے تحریر فرما دیں۔ جزاک اللہ

جواب: روزہ بہت ساری چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے،ان میں سے چند چیزیں مندرجہ ذیل ہیں:
(1) کان اور ناک میں دوا ڈالنا۔
(2) قصداً منہ بھر قے کرنا۔
(3) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا۔
(4) عورت کو چھونے سے انزال ہوجانا۔
(5) کوئی ایسی چیز نگل جانا، جو عادةً کھائی نہیں جاتی، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ۔
(6) لوبان یا عود وغیرہ کا دھواں قصداً ناک یا حلق میں پہنچانا۔
(7) بھول کر کھا پی لیا اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہوگا، پھر قصداً کھا پی لیا۔
(8) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالی۔
(9) دن باقی تھا، مگر غلطی سے یہ سمجھ کر کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے، روزہ افطار کرلیا۔
تنبیہ: ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا۔
 (10) جان بوجھ کر بیوی سے صحبت کرنے یا کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، قضاء اور کفارہ دونوں لازم ھوتے ہیں۔
                کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، ورنہ ساٹھ روزے متواتر رکھے، بیچ میں ناغہ نہ ہو، ورنہ پھر شروع سے ساٹھ روزے پورے کرنے پڑیں گے اور اگر روزہ کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلاے۔ آج کل شرعی غلام یا باندی کہیں نہیں ملتے، اس لیے آخری دو صورتیں متعین ہیں۔
وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں، مگر مکروہ ہوجاتا ہے:
  (1) بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا، ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلہ سے دانت صاف کرنا بھی روزہ میں مکروہ ہیں۔
 (2) تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا   
 (3) غیبت یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا یہ ہرحال میں حرام ہے، روزہ میں اس کا گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔
(4) روزہ میں لڑنا جھگڑنا، گالی دینا خواہ انسان کو ہو یا کسی بے جان چیز کو یا جاندار کو، ان سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیة: (200/1، ط: دار الفکر)
(الباب الثالث فيما يكره للصائم، وما لا يكره) . يكره مضغ العلك للصائم كذا في فتاوى قاضي خان.
وتكره له المبالغة في الاستنجاء كذا في السراج الوهاج. وكذا المبالغة في المضمضة والاستنشاق قال شمس الأئمة الحلواني: وتفسير ذلك أن يكثر إمساك الماء في فمه ويملأ لا أن يغرغر (1) كذا في المحيط، ولو فسا الصائم أو ضرط في الماء لا يفسد الصوم ويكره له ذلك هكذا في معراج الدراية....
ولا بأس بالحجامة إن أمن على نفسه الضعف أما إذا خاف فإنه يكره وينبغي له أن يؤخر إلى وقت الغروب وذكر شيخ الإسلام شرط الكراهة ضعف يحتاج فيه إلى الفطر، والفصد نظير الحجامة هكذا في المحيط. ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه من الجماع والإنزال ويكره إن لم يأمن والمس في جميع ذلك كالقبلة كذا في التبيين.
وأما القبلة الفاحشة، وهي أن يمص شفتيها فتكره على الإطلاق، والجماع فيما دون الفرج والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. قيل إن المباشرة الفاحشة تكره، وإن أمن هو الصحيح كذا في السراج الوهاج. والمباشرة الفاحشة أن يتعانقا، وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، وهو مكروه بلا خلاف هكذا في المحيط. ولا بأس بالمعانقة إذا لم يأمن على نفسه أو كان شيخا كبيرا هكذا في السراج الوهاج.

و فیھا ایضا: (203/1، ط: دار الفکر)
(الباب الرابع فيما يفسد، وما لا يفسد) . والمفسد على نوعين (النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة) . إذا أكل الصائم أو شرب أو جامع ناسيا لم يفطر، ولا فرق بين الفرض والنفل كذا في الهداية...
وإن تمضمض أو استنشق فدخل الماء جوفه إن كان ذاكرا لصومه فسد صومه وعليه القضاء، وإن لم يكن ذاكرا لا يفسد صومه كذا في الخلاصة وعليه الاعتماد.
ولو رمى رجل إلى صائم شيئا فدخل حلقه فسد صومه؛ لأنه بمنزلة المخطئ، وكذا إذا اغتسل فدخل الماء حلقه كذا في السراج الوهاج.
النائم إذا شرب فسد صومه، وليس هو كالناسي؛ لأن النائم أو ذاهب العقل إذا ذبح لم تؤكل ذبيحته وتؤكل ذبيحة من نسي، كذا في فتاوى قاضي خان.
وإذا ابتلع ما لا يتغذى به، ولا يتداوى به عادة كالحجر والتراب لا يوجب الكفارة كذا في التبيين، ولو ابتلع حصاة أو نواة أو حجرا أو مدرا أو قطنا أو حشيشا أو كاغدة فعليه القضاء، ولا كفارة كذا في الخلاصة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1591 May 14, 2019
rozay ko toornay or makrouh kar dene wali cheezain, Things that break the fast and make it makrooh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Sawm (Fasting)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.