سوال:
کیا افطار کی یہ دعا اللھم انی لک صمت وبک امنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت مسنون ہے؟ افطاری کی دعا افطار سے پہلے یا بعد میں، کب پڑھنی چاہیے؟
جواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت پڑھی جانے والی دو دعائیں احادیث کی کتابوں میں وارد ہے :
۱۔ ”اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ“۔
( ابوداؤد:باب القول عند الافطار، حدیث نمبر : 2360 )
۲۔ "ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہ"
( ابوداؤد:باب القول عند الافطار، حدیث نمبر : 2360 )
”اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ“ والی دعا افطار کرنے سے پہلے افطار شروع کرتے وقت پڑھی جائے، اس دعامیں الفاظ اگرچہ ماضی کے ہیں، لیکن ایسے موقعوں پر فعل ماضی کا استعمال معروف ہے اور دوسری دعا"ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہ" افطاری کے بعد پڑھی جائے۔
نوٹ: واضح رہے کہ افطار کی یہ دعا عوام کی زبانوں پر ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ مشہور ہے، ’’اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت‘‘. حالانکہ دعا میں: ’’وبك آمنت وعليك توكلت‘‘. کےالفاظ ثابت نہیں ہیں، صرف یہ الفاظ ثابت ہیں: ’’ اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت‘‘.، لہذا جو الفاظ ثابت ہیں، اسی کو پڑھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاة المفاتيح: (426/4، ط: دار الکتب العلمیة)
اما ما اشتھر علی الالسنة ’’اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت‘‘ فزیادة و بک امنت لا اصل لہ و ان کان معناہ صحیحا و کذا زیادة و علیک توکلت و لصوم غد نویت۔
بذل المجھود: (499/8، ط: مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی)
قال ابن عمر (کان النبی ﷺ اذا افطر قال) بعد الافطار: ذھب الظماء )بفتحتین بلا مد، العطش (وابتلت العروق و ثبت الاجر ان شاء اللہ)… عن معاذ بن زھرة الضبی ، التابعی، ارسل عن النبیﷺ فی القول عند الافطار ولکن وقع عند ابی داؤد فی السنن و فی المراسیل عن معاذ بن زھرة انہ بلغہ ان النبی ﷺ ذکرہ ابن حبان فی الثقات (انہ بلغہ ان النبی ﷺ کان اذا افطر قال)ای دعا: “اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ”۔
قاموس الفقہ: (296/4، ط: زمزم ببلشرز)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی