سوال:
مفتی صاحب ! ڈیجیٹل تصویر سے متعلق کیا احکامات ہیں؟ بعض علماء تو اس کو ناجائز کہتے ہیں, جبکہ بعض علماء ڈیجیٹل تصویر کو جائز کہتے ہیں, ہم کس کی بات مانیں؟
جواب: اصل سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ کی تصویر سے متعلق مسئلہ میں دو باتیں الگ الگ ہیں:
1۔ڈیجیٹل کیمرہ سے لی گئی نفس تصویر کا شرعی حکم
2۔ڈیجیٹل کیمرہ سے ناجائز تصاویر یا ویڈیوز بنانا
اس میں سے پہلی بات یعنی نفس تصویر کا حکم یعنی ڈیجیٹل کیمرے سے لی گئی تصویر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعض علماء کرام ناجائز اور بعض علماء کرام جائز قرار دیتے ہیں۔
جو علماء کرام جائز کہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ڈیجیٹل کیمرے سے لی گئی تصویر کا جب تک پرنٹ نہ لیا گیا ہو یا اسے پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہو اس وقت تک وہ تصویر محرم میں داخل نہیں، بشرطیکہ اس تصویر یا ویڈیو میں نامحرم افراد یا فحش مناظر نہ ہوں۔
ڈیجیٹل کیمرہ کی جس تصویر کی گنجائش دی گئی ہے، اس سے مراد اس چیز کی تصویر ہے، جس کو خارج میں بغیر تصویر کے دیکھنا بھی جائز ہے۔ اور جس چیز کو خارج میں بغیر تصویر کے دیکھنا جائز نہیں، اس کی تصویر یا ویڈیو بنانا بھی جائز نہیں، لہذا ڈیجیٹل تصویر کے جواز کے فتویٰ کا تعلق اس چیز کی ڈیجیٹل تصویر سے ہے، جس کو خارج میں دیکھنا جائز ہو، اور جس چیز کو خارج میں دیکھنا جائز نہیں، اس کی تصویر کو ان حضرات نے فتویٰ میں ہر گز جائز قرار نہیں دیا ہے، لہذا ان علماء کی طرف مطلقا تصویر کے جواز کی نسبت کرنا بالکل درست نہیں۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں :
ڈیجیٹل یا نان ڈیجیٹل کیمرہ سے نامحرم افراد کی تصویر لینا یا فحش اور ناجائز مناظر کی تصاویر محفوظ کرنا یا موسیقی کے ساتھ مناظر کو محفوظ کرنا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
ڈیجیٹل کیمرہ سے بنائی گئی ایسی ویڈیو جس میں جائز حدود میں تفریحی مواد ہو، اسے دیکھنا شرعاً جائز ہے، لیکن جس ویڈیو کے اندر نامحرم خواتین کی تصویر ہو یا موسیقی ہو یا فحش مناظر ہو، ایسی تفریحی ویڈیو دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ سے متعلق جن علماء نے جواز کا فتویٰ دیا ہے، وہ حاجت شرعیہ ( ضرورت کے مواقع پر ) استعمال کے لیے دیا گیا ہے، لہذا بلا ضرورت شرعیہ محض تفریح یا یادگار کے لیے استعمال کرنے سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب ما وطئ من التصاویر، رقم الحدیث: 5954، 75/4، دار الکتب العلمیة)
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: سمعت عبد الرحمن بن القاسم، وما بالمدينة يومئذ أفضل منه، قال: سمعت أبي، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها: قدم رسول الله ﷺ من سفر، وقد سترتُ بقرام لي على سهوة لي فيها تماثيل، فلما رآه رسول الله ﷺ هتكه وقال: «أشد الناس عذابا يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله» قالت: فجعلناه وسادة أو وسادتين.
و فیہ ایضاً: (كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم الحدیث: 5950)
عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".
رد المحتار: (كتاب الصلاة، مطلب مكروهات الصلاة، 647/1، ط: دار الفکر)
"قال في البحر: وفي الخلاصة: وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى. وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاةً لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی