سوال:
مفتی صاحب! ایک سوال پوچھنا تھا وہ یہ کہ ہمارے گاؤں میں نمازِ جمعہ اور نمازِ عید پڑھی جاتی ہے، جبکہ شرعی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے گاؤں کی آبادی 150 سے 200 ہے۔ ہمارے گاؤں میں صرف دو کریانہ اسٹور ہیں، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا ہمارا نماز جمعہ اور نماز عیدین پڑھنا جائز ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اسے کیسے ختم کیا جائے اور جو نمازیں پڑھ لی ہیں، ان کو لوٹایا جائے گا یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ نے اپنے گاؤں کی جو تفصیل لکھی ہے، اس کے مطابق اس گاؤں میں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں، لہذا اگر آپ کا گاؤں کسی شہر یا بڑی بستی سے متصل نہیں ہے تو ایسی صورت اس گاؤں میں جمعہ اور عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ جمعہ کی نماز کو ختم كركے ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہے۔
جہاں تک اب تک پڑھئی گئی نمازوں سے متعلق سوال ہے تو اس کا جواب اس وضاحت پر موقوف ہے کہ اس گاؤں میں کتنے عرصہ سے جمعہ کی نماز قائم کی جارہی ہے، نیز یہ کہ کسی مسنتد مفتی سے مسئلہ معلوم کرکے جمعہ کی نماز شروع کی گئی تھی یا یہ کہ گاؤں والوں نے خود ہی شروع کی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (82/1)
لا تصح الجمعة إلا في مصر جامع أو في مصلى المصر ولا تجوز في القرى، لقوله عليه الصلاة والسلام " لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع " والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وعنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم والأول اختيار الكرخي وهو الظاهر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی