سوال:
السلام علیکم، محترم مفتی صاحب! جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ دس مہینے پہلے آسٹریلیا آیا تھا اور آنے کے چار مہینے بعد ہی ایک سنجیدہ مسئلے سے دوچار ہو گیا جس سے نکلنے کے لیے کچھ قرضہ لینا پڑ گیا، بہرحال تین مہینے پہلے مجھے ایک نوکری ملی جس سے میں اپنا قرضہ اتار رہا ہوں اور اپنے معاملات دیکھ رہا ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے تین مہینے سے نوکری کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھ پا رہا ہوں، جس کی وجہ سے بہت بے چین ہوں، کبھی دل کرتا ہے کہ اللہ پہ توکل کروں اور نوکری چھوڑ دوں لیکن دوسری نوکری میں جمعہ پڑھنے کی سہولت ملے یا نہ ملے؟ اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں اور پھر مالی طور پر بھی پریشانی بڑھ جائے گی. اب اس تمام معاملے کو دیکھنے کے بعد مجھ پہ کیا حکم لازم ہوتا ہے؟ برائے مہربانی اس مسئلے کا کوئی حل بتائیے۔
جواب: اگر کسی جگہ جمعہ کہ شرائط پوری پائی جاتی ہوں تو وہاں رہنے والے تمام مرد مسلمانوں پر جمعہ ادا کرنا فرضِ عین ہوتا ہے، جمعہ کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ مسجد یا مصلّیٰ جاکر نماز پڑھنا شرط نہیں ہے بلکہ کم از کم چار آدمی ملکر کسی بھی جگہ نمازِ جمعہ ادا کرسکتے ہیں۔
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ پر جمعہ واجب ہے اور ملازمت کی وجہ سے جمعہ کے اجتماع میں پہنچنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے ساتھ مزید تین مسلمانوں کو ملا کر نمازِ جمعہ (دو خطبے اور دو رکعت نماز) ادا کرلیا کریں، جہاں نماز ادا کریں وہاں کا دروازہ کھلا رکھیں تاکہ اگر کوئی اور مسلمان شرکت کرنا چاہے تو کرسکے، اس طرح آپ لوگوں کی نمازِ جمعہ ادا ہو جائے گی اور آپ لوگ جمعہ ترک کرنے والے شمار نہیں ہوں گے، لیکن اگر ملازمت میں اس کی بھی اجازت نہ ہو تو پھر آپ اپنے لیے متبادل ملازمت تلاش کریں، ملازمت کی وجہ سے جمعہ ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 1052، ط: دار الرسالة العالمیة)
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن محمد بن عمرو، حدثني عبيدة ابن سفيان الحضرمي عن أبي الجعد الضمري، وكانت له صحبة، أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم - قال: "من ترك ثلاث جمع تهاونا بها، طبع الله على قلبه"
مصنف ابن ابی شیبة: (رقم الحدیث: 34406)
عن الحسن قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق۔
الدر المختار مع رد المحتار: (161/2، ط: سعید)
(ووجب سعى اليها وترک البيع) ولو مع السعي
(قوله وترك البيع) اراد به كل عمل ينافی السعی و خصه اتباع للأية
و فیه ایضاً: (153/2، ط: سعید)
والأصح وجوبها على مكاتب ومبعض واجير ويسقط من الاجر بحسابه ولو بعيدا وإلا لا.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی