سوال:
مفتی صاحب! ایک ایسا گاؤں جس کی آبادی تقریبا 2500 ہوگی اور شہر سے تقریبا ڈھائی سے تین کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے اور درمیان میں اتصال بھی نہیں ہے اور اس گاؤں میں کوئی مستقل دکان بھی نہیں جس سے روز مرہ کی ضروریات پوری کی جا سکیں، اس کے علاوہ یہ گاؤں شفاء خانہ، ڈاکخانہ وغیرہ سے بھی محروم ہے۔ وہاں کے علماء کرام جمعہ کی نماز تو نہیں پڑھاتے ہیں مگر عید کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جب وہاں کے علماء کرام سے عید کی نماز ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں تو جواباً فرماتے ہیں کہ ہم چند مصلحتوں کو مدِّ نظر رکھ کر عید کی نماز ختم نہیں کر رہے ہیں، مثلاً : (1) اگر ہم عید کی نماز ختم کریں گے تو لوگ متنفر ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہ حکم شریعت میں ابھی ایا ہے؟ وغیرہ وغیرہ (2) بعض لوگ صرف عید کی نماز میں شرکت کرتے ہیں، اگر عید کی نماز کو ختم کیا جائے تو وہ لوگ اس موقع سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ (3) ہو سکتا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے بیان سے کسی کی زندگی بن جائے وغیرہ وغیرہ۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ کسی صورت میں گاؤں میں عید کی نماز درست ہے یا نہیں؟ اور اس گاؤں کے علماء کو کیا کرنا چاہیے؟
۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں جس گاؤں کا ذکر ہے، اگر یہ جگہ فناء شہر (وہ جگہ جو شہر کے مصالح اور ضروریات کے لیے بنائی گئی ہو، جیسے: گھڑ دوڑ یا کھیل کا میدان وغیرہ) نہ ہو، بلکہ مستقل آبادی والا گاؤں شمار ہوتا ہو (جیسا کہ سوال سے معلوم ہو رہا ہے) تو یہ گاؤں شرعاً "قریہ صغیرہ یعنی چھوٹا گاؤں" ہے، لہذا فقہ حنفی کے مطابق اس جگہ جمعہ اور عید کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ اعذار ہیں تو وہ ایسے نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر جمعہ یا عید کی نماز کو جاری رکھا جاسکے، کیونکہ ان کا حل یہ ممکن ہے کہ علمائے کرام حکمت و بصیرت کے ساتھ لوگوں کو شرعی مسئلہ سمجھاتے رہیں، یہاں تک کہ اس حوالے سے لوگوں میں عمومی فضا قائم ہوجائے اور اس کے بعد عید کی نماز ختم کردی جائے، لیکن اس دوران آپس میں کسی بھی قسم کے فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے سے احتراز لازم ہے۔
نیز لوگوں کی اصلاح کی غرض سے عید کے دن ظہر کی نماز سے پہلے یا بعد میں اصلاحی بیان کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ بھی سال بھر کے مختلف ایّام میں عوام کی اصلاح اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے مجالس قائم کی جاسکتی ہیں، اس لیے عید کی نماز کو محض بیان اور اصلاح کی غرض سے جاری رکھنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع : (259/1، ط: دار الكتب العلمية)
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی