سوال:
ہمارے ہاں دیہاتوں میں جمعہ وعیدین کی نماز کافی عرصے سے پڑھائی جاتی ہیں، لیکن ان دیہاتوں میں جمعہ وعیدین کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان دیہاتوں میں جمعہ وعیدین کی نماز جاری رکھیں یا بند کر دیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی گاؤں یا بستی میں نمازِ جمعہ کے جائز ہونے کی شرائط نہ پائی جائیں تو وہاں جمعہ کی جماعت قائم کرنے کے بجائے ظہر پڑھنا ضروری ہے، لہٰذا ایسی جگہ پر جمعہ کو ختم کرکے ظہر کی جماعت قائم کرنی چاہیے، البتہ اگر ایسی کسی جگہ پر عرصہ دراز سے جمعہ قائم ہو اور اب اس کو ختم کرنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں پہلے سے جاری جمعہ کے اجتماع کو جاری رکھا جاسکتا ہے، لیکن ایسی کسی دوسری جگہ پر نیا جمعہ قائم کرنے کی اب بھی اجازت نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبي شيبة: (45/4، رقم الأثر: 5098، ط: دار القبلة)
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : لاَ جُمُعَةَ ، وَلاَ تَشْرِيقَ إِلاَّ فِي مِصْرٍ جَامِعٍ.
الدر المختار مع رد المحتار: (167/2، ط: دار الفكر)
وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة......وفي الرد تحته: (قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة
رد المحتار: (137/2)
عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ بَلْدَةٌ كَبِيرَةٌ فِيهَا سِكَكٌ وَأَسْوَاقٌ وَلَهَا رَسَاتِيقُ وَفِيهَا وَالٍ يَقْدِرُ عَلَى إنْصَافِ الْمَظْلُومِ مِنْ الظَّالِمِ بِحِشْمَتِهِ وَعِلْمِهِ أَوْ عِلْمِ غَيْرِهِ يَرْجِعُ النَّاسُ إلَيْهِ فِيمَا يَقَعُ مِنْ الْحَوَادِثِ وَهَذَا هُوَ الْأَصَحُّ اه ۔۔۔۔ في الجواهرلو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم.إلخ۔۔
کذا فی فتویٰ جامعہ بنوری ٹاؤن:
(رقم الفتوی: 144007200490)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی