سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! نیاز کی کیا حیثیت ہے؟ کیا کہیں قرآن اور حدیث یا صحابہ کے آثار سے ثابت ہے ؟
اور اگر کوئی غیر اللہ کی نیاز جیسے: غوث پاک اور کنڈے وغیرہ کی نیاز بھیجتا ہے تو اسکا کیا کرنا چاہیے؟
اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو زبردستی غیر اللہ کی نیاز یہ کہہ کر کھلاتا ہے کہ اگر تم شوہر کی نافرمانی کروگی تو مر کر اللہ کو کیا جواب دو گی؟ تو اب عورت کے لیے کیا حکم ہے؟ اور وہ یہ بھی کہتا ہے کے غوث پاک کے نام کی نیاز بھی اللہ کے نام کی ہی ہے، کیوں کہ اس میں سُورہ فاتحہ اور قرآن ہی پڑھا ہے تو وہ اب عورت کیا کرے ؟
جواب: اگر نیاز سے مقصود کسی میت کے لیے ایصال ثواب پہنچانا ہے تو یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مردے کو کسی بھی نیک عمل کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں یہ کھانا صرف غریبوں کو کھلانا چاہئے اور اس کی کوئی خاص صورت قرآن و حدیث میں نہیں ہے، لیکن اگر نیاز غیر اللہ کے نام پر ہو تو یہ "ماأہل لغیر اللہ بہ" کے حکم میں داخل ہے اور موہم شرک ہے اور حرام ہے، لہذا اگر نیاز غیراللہ کے نام پر ہو تو اس کا کھانا اورکھلانا دونوں حرام ہے۔
واضح رہے کہ اس میں شوہر کی بات نہیں مانی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (439/2، ط: سعید)
مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.
ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی