سوال:
مفتی صاحب! سنا ہے کہ خواتین کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نماز گھر میں پڑھے، صحن سے بہتر ہے کہ کمرے میں اور کمرے میں بھی کسی ایسی جگہ نماز پڑھے جو بہت چھپی ہوئی ہو۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ایسا کوئی حکم حدیث یا قرآن سے ثابت ہے؟
جواب: آپ ﷺنے خواتین کو یہ ترغیب دی ہے کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنےسے افضل ہے۔
حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺنے فرمایا: تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کوٹھری کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔
چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھری) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا، مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر: 5371)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (کتاب الصلوۃ، باب التشديد في ذلك، رقم الحدیث: 570، ط: دار الرسالة العالمیة)
حدثنا ابن المثنى، أن عمرو بن عاصم حدثهم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مورق، عن أبي الأحوص عن عبد الله، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها"
السنن الکبریٰ للبیھقی: (رقم الحدیث: 5371، 190/2، ط: دار الكتب العلمية)
أخبرنا أبو الحسين علي بن محمد بن عبد الله بن بشران العدل ببغداد، أنبأ أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد المصري، ثنا يحيى بن عثمان بن صالح، ثنا إبراهيم بن مروان أبو بكر، ثنا عبد المؤمن بن عبد الله الكناني، عن عبد الحميد بن المنذر بن أبي حميد الساعدي، عن أبيه، عن جدته أم حميد، أنها قالت: يا رسول الله، إنا نحب الصلاة تعني معك فيمنعنا أزواجنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلاتكن في بيوتكن خير من صلاتكن في دوركن، وصلاتكن في دوركن أفضل من صلاتكن في مسجد الجماعة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی