سوال:
مفتی صاحب ! یہاں کینیڈا میں ایک مسجد میں ایک مخصوص حصہ " فری زون " کیا گیا ہے، جہاں لوگ اپنی ضرورت سے زائد چیزیں لا کر رکھ دیتے ہیں، اور جس کو ضرورت ہو، وہ اٹھا کے لے جاتے ہیں، یہاں اکثر لوگ کھانے پینے كی اشیاء بھی رکھ دیتے ہیں، جیسے: فروٹس، کھجوریں، اور کبھی برگرز وغیرہ بھی۔
اب اِس میں یہ معلوم کرنا کہ کس نے رکھا ہے؟ یہ بھی مشکل ہے اور دوسری طرف اس كی کمائی کیا ہے یا کس طرح كی چیز ہے، مثلاً: صدقہ ہے یا کچھ زکوۃ وغیرہ ہے، یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے، ایسی صورت میں ان چیزوں کو استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ اگر وہاں چیزیں رکھنے والوں کا اکثر کاروبار اورغالب آمدنی حلال اور جائز ہے، تو اس چیز کا کھانا بلاشک وشبہ جائز ہے، اس لیے بلاوجہ کسی شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے، جب تک قرائن سے واضح طور پر پتہ نہ چلے کہ یہ حرام ہے، اس وقت تک اس چیز کا استعمال جائز ہے، اسی طرح جب تک یہ واضح طور پر پتہ نہ چلے کہ یہ چیزیں زکوة کی مد میں رکھی جاتی ہیں، اس وقت تک اس کا استعمال جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (343/5، ط: دار الفکر)
آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط.
الاشباہ و النظائر: (57/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وفي شرح المنار للمصنف: الأشياء في الأصل على الإباحة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی