سوال:
مفتی صاحب! روزوں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: فقہاء کرام نے روزہ کی آٹھ اقسام بیان کی ہیں جو درج ذیل ہے:
۱) "فرض معین" یعنی جو فرض ہو اور اس کا وقت بھی مقرر ہو، جیسے: رمضان المبارک کے روزے۔
۲) "فرض غیر معین" یعنی ایسے روزے جو فرض تو ہوں لیکن ان کا وقت مقرر نہ ہو، سہولت کے مطابق کبھی بھی رکھے جاسکتے ہوں، جیسے: رمضان المبارک کے قضاء روزے۔
۳) "واجب معین" یعنی ایسے روزے جو واجب ہوں اور ان کا وقت بھی متعین ہو، جیسے: نذر معین کے روزے۔
۴) "واجب غیر معین" یعنی ایسے روزے جو واجب تو ہوں لیکن ان کا کوئی وقت مقرر نہ ہو، جیسے نذر غیر معین کے روزے، نفل روزے جن کو پورا کرنے سے پہلے فاسد کردیا ہو۔
۵) "مسنون" جیسے 9، 10 محرم یا ۱۰، ۱۱ محرم کے روزے۔
۶) "مستحب" جیسے ایامِ بیض (قمری مہینہ کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ) کے روزے۔
۷) "مکروہ تحریمی" جیسے عید الفطر، عید الاضحٰی اور ایام تشریق میں روزے رکھنا۔
۸) "مکروہ تنزیہی" جیسے صرف دس محرم کا روزہ رکھنا۔
(نوٹ: راجح قول کے مطابق صرف دس محرم الحرام کا روزہ رکھنا بھی مکروہ تنزیہی نہیں ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (373/2، ط: دار الفکر)
«(وهو) أقسام ثمانية: (فرض) وهو نوعان: معين (كصوم رمضان أداء و) غير معين كصومه (قضاء و) صوم (الكفارات) لكنه فرض عملا لا اعتقادا ولذا لا يكفر جاحده قال البهنسي تبعا لابن الكمال.
(وواجب) وهو نوعان: معين (كالنذر المعين، و) غير معين كالنذر (المطلق)» ... (ونفل كغيرهما) يعم السنة كصوم عاشوراء مع التاسع . والمندوب كأيام البيض من كل شهر ويوم الجمعة ولو منفردا وعرفة ولو لحاج لم يضعفه. والمكروه تحريما كالعيدين. وتنزيها كعاشوراء وحده وسبت وحده
(قوله وهو أقسام ثمانية) فرض معين وغير معين وواجب كذلك، ونفل مسنون أو مستحب ومكروه تنزيها أو تحريما
الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي: (أنواع الصيام، 1630/3، ط: دار الفكر)
الصوم أنواع: واجب، وتطوع، وحرام، ومكروه.
وقال الحنفية: الصوم ثمانية أنواع: فرض معين كصوم رمضان أداء، وغير معين كقضاء رمضان وصوم الكفارات، وواجب معين كنذر معين، وغير معين كالنذر المطلق، ونفل مسنون كصوم عاشوراء وتاسوعاء، ونفل مندوب أو مستحب كأيام البيض من كل شهر، ومكروه تحريما كصوم العيدين، ومكروه تنزيها كعاشوراء وحده، وسبت وحده، ونيروز ومهرجان.»
العرف الشذي شرح سنن الترمذي: (باب ما جاء في الحث على صوم يوم عاشوراء، 177/2، ط: دار التراث العربي)
وحاصل الشريعة أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفردا تنزيها فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفردا وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوما معه.
اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی