سوال:
مفتی صاحب! میری بیٹی کا نام یشفع ہے، کیا یہ نام رکھنا صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ لفظ "یَشْفَعُ" ('Yashfa) عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ فعل مضارع سے واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، جس کا معنی ہے: وہ ایک مرد کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملاتا / جوڑتا ہے، اور جب اس کے صلے میں لام آ جائے جیسے: شفع لہ تو کسی دوسرے شخص کے لیے سفارش کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، چونکہ یہ لفظ فعل ہے، اسم (نام) نہیں ہے، اس لیے لڑکی کا نام "یَشْفَعُ" نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اس کے بجائے شفیعہ یا شافعہ (سفارش کرنے والی عورت) نام رکھنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (362/5، ط: دار الفکر)
وفي الفتاوى: التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط.
كتاب العين للفراھیدی: (260/1، ط: مكتبة الهلال)
شفع: الشفع: ما كان من العدد أزواجا. تقول: كان وترا فشفعته بالآخر حتى صار شفعا. وفي القرآن والشفع والوتر. الشفع يوم النحر والوتر يوم عرفة. ويقال: الشفع الحصا يعني كثرة الخلق، والوتر ... والشافع: الطالب لغيره: وتقول استشفعت بفلان فتشفع لي إليه فشفعه في. والاسم: الشفاعة. واسم الطالب: الشفيع.
القاموس الوحید: (ص: 706، ط: ادارہ اسلامیات)
شفع الشئ شفعا۔۔۔۔ جوڑا بنانا (کسی چیز کے ساتھ اس جیسی دوسری چیز ملانا) 2) دوہرا کرنا۔
الشافع: سفارشی، سفارش کنندہ
الشفیع: سفارشی، وکیل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی