سوال:
کیا چمچ سے چاول کھانا خلاف سنت ہے ؟
جواب: چمچ سے کھانا فی نفسہٖ جائز ہے، شرعا ممنوع نہیں ہے، اسی طرح چمچ سے کھانا خلافِ سنت بھی نہیں ہے، کیونکہ خلافِ سنت اس عمل کو کہا جاتا ہے، جو خلافِ سنت ہونے کی بناء پر قابل نکیر ہو اور اس معانی میں خلافِ سنت اس عمل کو کہا جائے گا، جو سنن مؤکدہ کے ترک پر مشتمل ہو، یعنی وہ افعال جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے طور پر کیے ہیں اور ان پر مواظبت فرمائی ہے، ان کو چهوڑ کر ان کے خلاف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا منکر ہے، لہذا وہ خلافِ سنت کہلائے گا، لیکن سنن غیر مؤکدہ یعنی وہ افعال جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے طور پر نہیں کیے،بلکہ عادتاً کیے ہیں تو ایسی سنتوں پر بنیت اتباع عمل کرنا بےشک باعثِ ثواب ہے، لیکن ان کا چھوڑنا شرعاً موجبِ کراہت اور قابلِ ملامت نہیں، اس لیے ان کے بجائے اگر کوئی اور مباح طریقہ اختیار کیا جائے تو وہ خلافِ سنت نہیں کہلائےگا، ہاتھ سے کھانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سننِ عادیہ میں سے ہے، اس لیے ہاتھ سے کھانا سنت کے قریب اور باعثِ برکت و سعادت ہے، عام حالات میں بلا عذر اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے، لیکن کسی وجہ سے اس طریقہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مباح طریقہ اختیار کر لیا جائے تو اس کو بھی ناجائز یا مکروہ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو استعمال نہ کرنا اس کے حرام یا مکروہ ہونے کی دلیل نہیں، جبکہ کوئی دلیل شرعی منع کی موجود نہ ہو، مثلاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چپاتی تناول نہیں فرمائی، مگر چباتی کے استعمال کو ممنوع یا خلافِ سنت نہیں کہا جاسکتا، اسی طرح چمچ سےکھانے کو خلافِ سنت یا مکروہ نہیں کہاجاسکتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ چمچ سے کھانے کے بارے میں عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے، اس میں کفار وفساق کے ساتھ تشبہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ بات اس وقت تو درست تھی، جب کھانے کے لیے چمچ کا استعمال یہود و نصاریٰ کے ساتھ مخصوص تھا، لیکن اب ہمارے زمانے میں اس کا رواج مسلمانوں میں بھی اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اب یہ کسی قوم یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں رہا، اس لیے اب اس کو تشبہ کی وجہ سے ممنوع نہیں کہہ سکتے، بالخصوص جبکہ چمچ کے استعمال میں غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا مقصود بھی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (271/45، ط: دار السلاسل)
يسن الأكل بثلاثة أصابع، هذا إن أكل بيده، ولا بأس باستعمال الملعقة ونحوها.
و فيها ایضاً: (265/25، ط: دار السلاسل)
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
أ - سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.
ب - سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك
الجوھرۃ النیرۃ: (5/1، ط: المطبعة الخیریة)
السنة في اللغة هي الطريقة سواء كانت مرضية أو غير مرضية «قال - عليه الصلاة والسلام - من سن سنة حسنة كان له ثوابها وثواب من عمل بها إلى يوم القيامة ومن سن سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها إلى يوم القيامة» وهي في الشرع عبارة عما واظب عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - أو أحد من أصحابه ويؤجر العبد على إتيانها ويلام على تركها
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی