سوال:
مفتی صاحب! جیسے شوال کے نفلی روزوں میں ماہواری کے قضاء روزوں کی نیت نہیں کی جا سکتی، کیا اسی طرح ذی الحجہ کے نفلی روزوں میں بھی ایام حیض کے قضاء روزوں کی نیت نہیں کرسکتے؟ نیز یہ رہنمائی فرمائیں کہ ذی الحجہ کے مکمل دس روزے ہی رکھنا لازم ہیں یا اپنی مرضی سے جتنے بھی رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ ایام حیض کی وجہ سے قضاء ہوجانے والے روزے پاکی کے بعد رکھنا عورت کے ذمہ لازم ہوتے ہیں، جبکہ نفل، مستحب یا سنت روزوں کی ادائیگی اس کے ذمہ لازم نہیں ہے۔
چونکہ ان دونوں روزوں کی شرعی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اس بناء پر شوال یا ذی الحجہ کے نفلی روزوں کے ساتھ ایامِ حیض کے قضاء روزوں کی نیت کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
نیز ذی الحجہ کے نفل روزے مکمل رکھنا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اپنی طاقت اور قوت کے بقدر جتنے روزے رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں، البتہ 10 ذی الحجہ (یعنی عیدالاضحی) کے دن روزہ رکھنا شرعاً ناجائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیة: (الباب الأول في تعريفه وتقسيمه وسببه ووقته وشرطه، 196/1-197، ط: دارالفکر)
ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحسانا، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلا أو نهارا أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحسانا كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة.
وفیه أيضا:(اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺜﺎﻟﺚ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﺼﺎﺋﻢ ﻭﻣﺎ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ،201/1،ط:دار الفکر)
ويكره صوم يوم العيدين، وأيام التشريق ... ولا قضاءَ عليه إن شرع فيها ثم أفطر، كذا في الكنز، هذا في ظاهر الرواية عن الثلاثة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی