سوال:
میں نے ایک لڑکی سے نکاح کیا ہے، اس لڑکی کی پہلے کہیں شادی ہوئی تھی اور خلع ہوگئی تھی، میں نے ان سے نکاح بالوکالت کیا ہے، وہ کسی اور شھر میں رہتی ہیں، میں کسی اور میں رہتا ہوں۔ میں نے ان سے فون کال پر اجازت لی کہ میں کہ آپ کا نکاح اپنے آپ سے کر دوں؟انہوں نے کہا: جی میں آپ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ میرا نکاح اپنے آپ سے کر دیں، پھر میں نے دو بندوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کیا، اس میں میں نے صراحتاً یہ کہا کہ میں نے فلاں بنت فلاں کو اور پھر ان کے والد صاحب کا بھی تعارف بتایا، گھر کا پتا سارا کچھ بتایا کہ میں نے ان کو بعوض اتنے حق مہر کے اپنے نکاح میں لیا اور میں نے ان کو اپنے نکاح میں قبول کیا تو کیا یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا؟
تنقیح:
محترم آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ
1) مذکورہ عورت نے خلع شوہر کی رضامندی سے لیا تھا یا اس کی رضامندی کے بغیر کورٹ سے بلا وجہ حاصل کیا تھا؟
2) اگر شوہر کی رضامندی کے بغیر حاصل کیا تھا تو کس عذر کی بنا پر حاصل کیا تھا؟ اس کی تفصیل لکھیں۔
3) کیا مجلس نکاح میں موجود گواہ پہلے سے اس عورت کو پہچانتے تھے؟ اگر نہیں پہچانتے تو کیا مجلس نکاح میں عورت کے باپ کے ساتھ دادا کا نام بھی لیا گیا تھا یا نہیں؟
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
1) مفتی صاحب! لڑکی والوں نے خلع لیا تھا، وہ لڑکا نشہ وغیرہ کرتا تھا اور وہ بالکل ایک پیسہ بھی خرچہ نہیں دیتا تھا اور وہ بہت زیادہ مارتا تھا وہ نشہ کر کے گھر آتا، چیزیں پھینکنے لگ جاتا تھا، اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھتی تھی تو ان کے مکے مارتا تھا اور انتہائی غلیظ ترین گالیاں دیتا تھا کھانا بھی بالکل نہیں دیتا تھا، پریگنیسی کے دوران 18 دن کھانا نہیں دیا، جو بچا ہوتا تھا وہ کھالیتی تھی۔ رمضان میں وہ نشہ کرتا تھا نشہ کی حالت میں اکثر روزے خراب کرتا یعنی جبرا جماع کرتا، جس کی وجہ سے انہوں نے قریب دارالافتاء سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو 60 روزے مسلسل رکھنا ہوں گے، ایک بھی چھوٹ گیا تو دوبارہ سے شروع کرنا ہوں گے اور جیسے ہی اس کا مقصد پورا ہو جاتا وہ دھکا دیتا تھا۔ اس بنیاد پر انہوں نے خلع لیا۔
2) مفتی صاحب ان کا بھائی بھی عالم ہے اور ان کے والد صاحب بھی بہت دینی ہے۔ اپنے شہر کے تبلیغی مرکز کے امیر ہیں۔ مفتی صاحب مجلس نکاح میں جو گواہ تھے، ان میں سے ایک ان کے والد صاحب کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور دوسرا صحیح سے نہیں سے جانتا تھا تو پھر میں نے یعنی دونوں کے سامنے مکمل تعارف کروایا کہ میں معاذ صاحب جو میری بیگم کے والد ہیں فلاں شہر کی فلانی سوسائٹی میں ہاؤس نمبر فلاں میں رہتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان کی دو شادیاں ہیں ان میں سے پہلی بیوی کا پانچ بچے ہیں، ان میں سے پہلی بیٹی ہیں، پھر میں نے یوں بولا کہ میں محمد ذاکر زکریا نے فلاں بنت فلاں کو اپنے نکاح میں بعوض پچاس ہزار مہر کے قبول کیا۔
3) مفتی صاحب ان کے والد کا نام معاذ حسین ہے ان کا نام اس جگہ کافی مشہور بھی ہے حسن دادا کا نام تھا مفتی صاحب اب بالکل بھی ذہن میں نہیں آ رہا کہ میں نے بولا ہے کہ نہیں بولا۔ میں نے ایک ایک چیز ایک مفتی صاحب سے پوچھی تھی۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ وکالت کا طریقہ کار درست ہے، لیکن لڑکی کی غیر موجودگی میں نکاح کے انعقاد کے لیے اجنبی گواہوں کے سامنے عورت کا نام اور اس کے باپ اور دادا کا نام لینا بھی ضروری ہے تاکہ گواہوں کے سامنے اس کا نام و نسب اچھی طرح واضح ہوجائے۔
چونکہ مذکورہ صورت میں ایک گواہ لڑکی اور اس کے باپ اور دادا کو نہیں پہچانتا تھا، لہذا اگر اس کے سامنے لڑکی کے دادا کا نام نہیں لیا گیا ہے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ہے، اس لیے دوبارہ شرعی طریقہ کے مطابق نکاح کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (26/3، ط: دار الفكر)
(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح
(قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا
الفتاوی البزازية علی ھامش الھندیة: 63/2، ط: المکتبة الرشیدیة
وكلته بأن يتزوجها فقال عند الشهود تزوجت فلانة ولم يعرفها الشهود لا يصح ما لم يذكر إسمها واسم أبيها وجدها وإن عرفوها صح بلا ذكر الأسماء وكذا كان الشهود يعرفون إسمها فذكر الإسم كاف إذا علموا أنه أرادها بالذكر.
خیر الفتاوی: (314/4، ط: مکتبہ امدادیہ)
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: (رقم الفتویٰ: 143909201955)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی