سوال:
مفتی صاحب! میں نے سنا ہے کہ جمعہ کی دوسری اذان کی طرح جمعہ کی اقامت کا بھی زبان سے جواب نہیں دینا چاہیے، بلکہ اگر کوئی جواب دینا چاہے تو دل ہی دل میں دے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے جمعے کی دوسری اذان کا جواب زبان سے دینے کے بارے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں، البتہ مفتیٰ به قول کے مطابق جمعہ کی دوسری اذان کا زبان سے جواب نہیں دیا جائے گا، البتہ صرف دل ہی دل میں جواب دے سکتے ہیں اور جو حکم جمعہ کی دوسری اذان کا ہے، وہی حکم جمعہ کی اقامت کا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 1387، 437/1، ط: المكتبة الإسلامي)
عن أبي سعيد وأبي هريرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ''من اغتسل يوم الجمعة ولبس من أحسن ثيابه ومس من طيب إن كان عنده ثم أتى الجمعة فلم يتخط أعناق الناس ثم صلى ما كتب الله له ثم أنصت إذا خرج إمام حتى يفرغ من صلاته كانت كفارة لما بينها وبين جمعته التي قبلها .'' رواه أبو داود
رد المحتار: (399/1، ط: سعید)
وينبغي أن لا يجيب بلسانه اتفاقاً في الأذان بين يدي الخطيب۔
کذا فی فتاوى دارالعلوم ديوبند: (فتویٰ نمبر: 148290)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی