سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص ٹرین سے سفر کرکے واپس اپنے شہر آرہا تھا، شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے قصر کی نیت سے ایک رکعت پڑھ لی، ابھی دوسری رکعت مکمل نہیں کی تھی کہ ٹرین اپنے شہر کی حدود میں داخل ہو گئی تو کیا وہ اپنی نماز قصر کر کے پوری کرے یا اس کو دوبارہ سے پوری رکعتیں پڑھنی ہوں گی؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مسافر شخص نماز کا وقت نکلنے سے پہلے ہی شہر کی حدود میں داخل ہو جائے اور اس نے اب تک نماز ادا نہ کی ہو تو اس پر چار رکعت والی نماز پوری ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ مسافر نے اب تک اپنی نماز مکمل نہیں کی تھی اور وہ اس دوران شہر کی حدود میں داخل ہو گیا ہے، اس لیے اس پر چار رکعت والی نماز پوری پڑھنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
كتاب الأصل للإمام محمد: (268/1، ط: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية)
قلت أرأيت رجلا خرج مسافرا فحضرت الصلاة وهي الظهر فافتتح الصلاة ليصلي وقد خرج من مصره وهو يريد أن يصلي ركعتين فأحدث حين دخل في الصلاة فانفتل فأتى المصر فتوضأ ثم عاد إلى مكانه كم يصلي قال أربع ركعات قلت لم قال لأنه قد دخل المصر فصار مقيما وهو في الصلاة بعد فعليه أن يصلي صلاة المقيم.
الهندية: (142/1، ط: دار الفكر)
وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو الإقامة فيه سواء دخله بنية الاختيار أو دخله لقضاء الحاجة، كذا في الجوهرة النيرة.
رد المحتار: (131/2، ط: دار الفكر)
والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت وهو قدر ما يسع التحريمة فإن كان المكلف في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله
قوله: وجب ركعتان أي وإن كان في اوله مقيما و قوله: وإلا أربع : أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيما في آخره فالواجب أربع.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی