سوال:
اب اگر کسی موقع پر بہرا شخص امامت کے منصب پر فائز ہو جائے اور نماز میں قراءت کی غلطی یا کوئی اور ایسا سہو پیش آئے، جس پر لقمہ دینا ضروری ہو تو اس صورت میں لقمہ دینا صرف زبان سے کافی ہوگا یا کوئی اور طریقہ مثلاً جسمانی اشارہ یا قدموں کی حرکت وغیرہ اختیار کی جائے؟ رہنمائی فرما دیں کہ اس مخصوص حالت میں شریعت کی روشنی میں لقمہ دینے کا صحیح و شرعی طریقہ کیا ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ فقہاء کرام نے امام بنانے کے لیے جو شرائط ذکر کی ہیں، ان میں سماع کا ذکر نہیں ہے، یعنی بہرے شخص کو امام بنانا جائز ہے، لیکن اگر کسی شخص کا بہرا پن اس حد تک بڑھ چکا ہو کہ بالکل بھی سنائی نہیں دیتا تو چونکہ نماز میں غلطی کی صورت میں اس کو لقمہ دینا اور غلطی پر منتبہ کرنا تقریباً ناممکن ہے، اس لیے اگر ایسا شخص پہلے سے کہیں امام ہے اور مکمل توجّہ کے ساتھ نمازیں پڑھاتا ہے اور غلطی نہیں کرتا تو اس کو امامت سے نہ ہٹایا جائے، البتہ اگر اس سے نماز میں سہو واقع ہو رہا ہو تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کو امام بنالیا جائے تاکہ لوگوں کی نمازیں اور وقت ضائع نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث:594، ط: دارالرسالة العالمیة)
عن مكحول، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة المكتوبة واجبة خلف كل مسلم برا كان او فاجرا وإن عمل الكبائر"
الهندية: (81/2- 82، ط: دار الفکر)
(ومنها اللحن في الإعراب) إذا لحن في الإعراب لحنا لا يغير المعنى بأن قرأ لا ترفعوا أصواتكم برفع التاء لا تفسد صلاته بالإجماع وإن غير المعنى تغييرا فاحشا بأن قرأ وعصى آدم ربه بنصب الميم ورفع الرب وما أشبه ذلك مما لو تعمد به يكفر.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی