سوال:
میں شرعی پردہ اور نقاب کرتی ہوں، لیکن میری والدہ اس کے خلاف ہیں۔ ہم کراچی میں رہتے ہیں اور اب لاہور جا رہے ہیں، جہاں میرا بہنوئی (بہن کا شوہر) رہتا ہے۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ میری بہن اور اس کا شوہر ہمارے چھوٹے سے گھر میں کئی دنوں کے لیے رہیں گے، اور اگر میں نقاب کرتی رہی تو گھر میں کشیدگی اور الجھن پیدا ہوگی۔ وہ رو پڑتی ہیں، منتیں کرتی ہیں، کبھی مجھ سے بات نہیں کرتیں، اور کہتی ہیں کہ میں نے تمہاری پچیس سال پرورش کی ہے، بس ایک بات مان لو ، اپنے بہنوئی کے سامنے نقاب مت کرو، صرف حجاب کر لیا کرو۔
میرا سوال یہ ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے نقاب جاری رکھوں یا والدہ کی بات مان کربہنوئی کے سامنے صرف حجاب کر لوں ؟
جواب: واضح رہے کہ بہنوئی چونکہ غیر محرم ہوتا ہے، لہذا سالی کے لیے اس سے پردہ کرنا شرعاً لازم ہے، لیکن اگر گھر کی تنگی کی وجہ سے مستقل طور پر پردہ کرنا دشوار ہو (جیسا کہ سوال میں گھر کی تنگی کا عذر مذکور ہے) اور کسی فتنہ کا بھی بظاہر اندیشہ نہ ہو تو سالی بہنوئی کے سامنے ہوتے ہوئے پورا جسم ڈھانپ کر صرف چہرہ اور دونوں ہاتھ اور پاؤں کھلے رکھ سکتی ہے، اس کے علاوہ سر کے بال یا بدن کا کوئی اور حصہ اس کے سامنے کھولنا جائز نہیں ہے، اسی طرح بہنوئی کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے اور ہنسی مذاق کرنے سے بہر صورت اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (369/6، ط: دار الفکر)
(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة ... (وعبدها كالأجنبي معها) فينظر لوجهها وكفيها فقط. ... (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة) كقاض وشاهد يحكم (ويشهد عليها).
(قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة.
الفتاوي التاتارخانیة: (474/3، ط: زکریا)
والمحرم الزوج ومن لا یجوز له مناکحتها علی التأبید برضاع، أو صهریة.
کتاب النوازل: (405/14، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی