سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !ایک کمپنی کی طرف سے مارکیٹنگ کی نوکری میں اپنے ملازموں کے لئے کچھ رقم مختص ہے، جس سے وہ اپنے کسٹمرز کی دعوت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائری اور سالانہ کلینڈر بھی آتا ہے، جو وہ اپنے کسٹمرز کو دیتے ہیں.
سوال یہ ہے کہ کیا یہ رشوت کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
جواب: کمپنی کا اپنی مصنوعات کی تشہیر اور فروخت میں اضافے کے لیے اپنے کسٹمرز (دکانداروں) کو تحائف دینا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، فی نفسہ جائز ہے، رشوت کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
لیکن اگر کمپنی اپنے کسٹمرز (دکانداروں) کو ایسا فائدہ پہنچائے، جس کا منفی اثر عام خریداروں پر پڑتا ہو، مثلا: وہ چیز غیر معیاری ہو، یا کسی برانڈ کی نقل ہو، یا صحت کے لیے نقصان دہ ہو یا اس میں کوئی اور شرعی خرابی ہو، تو ایسا نفع خیانت، دھوکہ اور رشوت لینے کے زمرے میں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب قول النبي ﷺ من غشنا فلیس منا، 70/1)
قال رسول اللہ ﷺ : ’’ من غشّنا فلیس منّا ‘‘.
سنن الترمذي: (باب ما جاء في کراہیۃ الغشّ في البیوع، 245/1)
سنن أبي داود: (کتاب الأدب، ص: 679)
قول النبی علیہ الصلاۃ والسلام :
’’کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثاً ہو لک بہ مصدق ، وأنت لہ بہ کاذب‘‘.
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیة: (219/31)
"اتفق الفقہاء علی أن الغش حرام ، سواء أکان بالقول أم بالفعل ، وسواء أکان بکتمان العیب في المعقود علیہ أو الثمن أم بالکذب والخدیعۃ ، وسواء أکان في المعاملات أم في غیرہا من المشورۃ والنصیحۃ ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی