resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: سرکاری ملازم کا لوگوں سے ہدیہ اور کمیشن لینا (33438-No)

سوال: ۱) میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں، وہاں رشوت عام ہے۔ بعض لوگ خود سے آ کر خوشی سے کہہ کر رقم دے جاتے ہیں اور کہتے ہیں “میں اپنی خوشی سے دے رہا/دے رہی ہوں”، حالانکہ میں نے مانگی نہیں۔ کیا ایسے خود دیے گئے پیسے قبول کرنا شرعًا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہوں تو قبول کرنے کے بعد کیا انہیں واپس کرنا لازم ہے یا ان کا کوئی اور شرعی حل ہے؟
۲) بعض وکیل یا انویسٹی گیٹر اپنے ذاتی کیس/درخواست وغیرہ دلوانے کے لیے مجھ سے کام کرواتے ہیں۔ میں وہ کام اپنی محنت سے کرتا ہوں اور پیشگی معاوضہ نہیں مانگتا، مگر وہ بعد میں خوشی سے رقم دے دیتے ہیں۔ کیا ایسے بعد میں ملنے والے پیسے (تحفہ/معاوضہ) قبول کرنا جائز ہے؟ کیا اس کو محنت کی اجرت سمجھا جا سکتا ہے یا اس کا حکم رشوت جیسا ہے؟
اگر ممکن ہو تو براہِ کرم دونوں صورتوں میں حلال و حرام اور عملِ درست (اگر ناجائز ہو تو واپسی/نذر/خرچ وغیرہ) کی مختصر رہنمائی دیجیے۔

جواب: 1) واضح رہے کہ جس کام کا کرنا انسان پر واجب ہو، اس کے کرنے پر معاوضہ لینا یا جس کام کا چھوڑنا اس کے ذمّہ لازم ہو، اس کے کرنے پر معاوضہ لینا "رشوت" کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ سوال میں لکھی گئی تفصیل کے مطابق اگرچہ لوگ آپ کو رقم یہ کہہ کر دیں کہ وہ آپ کو خوشی سے دے رہے ہیں، لیکن اس طرح کا لین دین عام طور پر مفاسد سے خالی نہیں ہوتا، بالخصوص جب دفتر میں رشوت عام بھی ہو (جیسا کہ سوال میں ذکر ہے)، لہٰذا اس طرح دیے گئے پیسے قبول کرنے سے بچنا چاہیے، اور اگر رقم دینے والا رقم دینے پر مجبور ہو یا اس کے ذریعہ کوئی ناجائز مقصد حاصل کرنا ہو تو ایسی رقم کا وصول کرنا ناجائز ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اسے اصل مالک کو واپس کیا جائے، لیکن اگر اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو بلا نیت ثواب فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔
2) وکیل یا انویسٹی گیٹر کے جو کام آپ کرتے ہیں، اگر یہ کام آپ کی ملازمت کا حصہ ہیں تو ان کاموں پر ان لوگوں سے معاوضہ لینا درست نہیں، لیکن اگر یہ کام آپ کی ملازمت کا حصہ نہ ہوں، تب بھی ملازمت کے اوقات میں یہ کام کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر یہ کام آپ اپنے ذاتی اوقات میں کرتے ہوں، اور ادارہ کی طرف سے اس طرح کام کرنے پر پابندی بھی نہ ہو، نیز اس طرح رقم لینے میں جواب نمبر (1) میں ذکر کردہ مفاسد بھی نہ پائے جاتے ہوں تو یہ رقم لینے کی گنجائش ہے، تاہم اس طرح رقم کی لین دین میں عام طور پر احتیاط نہیں برتی جاتی، نیز اس سے رشوت اور خیانت کا دروازہ کھلنے کا اندیشہ ہے، اس لیے یہ رقم لینے سے بچنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن لابی داؤد: (3/300، كتاب الأقضية، ط: المكتبة العصرية)
عن ‌عبد الله بن عمرو ، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي.

سنن الترمذي: (3/ 614)
1336 - حدثنا قتيبة قال: حدثنا أبو عوانة، عن عمر بن أبي سلمة، عن أبيه، عن أبي هريرة قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي في الحكم»

حاشية ابن عابدين: (5/ 362، کتاب القضاء، ط: سعید)
(قوله: أخذ القضاء برشوة) ...... وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه. الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط .....هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع
الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ‌ولا ‌يجوز ‌أخذ ‌المال ليفعل الواجب، اه ما في الفتح ملخصا. وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك وفيها دفع للقاضي أو لغيره سحتا لإصلاح المهم فأصلح ثم ندم يرد ما دفع إليه اه

وفیه أیضا: (5/ 372، کتاب القضاء، ط: سعید)
(ويرد هدية) التنكير للتقليل ابن كمال: وهي ما يعطى بلا شرط إعانة بخلاف الرشوة ابن ملك ولو تأذى المهدي بالرد يعطيه مثل قيمتها خلاصة ولو تعذر الرد لعدم معرفته أو بعد مكانه وضعها في بيت المال
(قوله: ويرد هدية) الأصل في ذلك وما في البخاري، عن أبي حميد الساعدي «قال استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم، وهذا لي قال عليه الصلاة والسلام هلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا» قال عمر بن عبد العزيز: كانت الهدية على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية واليوم رشوة. ذكره البخاري، واستعمل عمر أبا هريرة فقدم بمال فقال له من أين لك هذا؟ قال: تلاحقت الهدايا فقال له عمر أي عدو الله هلا قعدت في بيتك، فتنظر أيهدى لك أم لا فأخذ ذلك منه، وجعله في بيت المال، وتعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية فتح قال في البحر: وذكر الهدية ليس احترازيا إذ يحرم عليه الاستقراض والاستعارة ممن يحرم عليه قبول هديته كما في الخانية اه. قلت: ومقتضاه أنه يحرم عليه سائر التبرعات، فتحرم المحاباة أيضا، ..... (قوله: وضعها في بيت المال) أي إلى أن يحضر صلبها فتدفع له بمنزلة اللقطة كما في الفتح. ...... وكذا قوله وكل من عمل للمسلمين عملا حكمه في الهدية حكم القاضي اه.

واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things