سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک سوال ہے کہ ایک شخص نے گزشتہ تین سال سے صدقہ فطر ادا نہیں کیا، اب اِس سال جب وہ ادائیگی کرے گا تو آج کی قیمت کا اعتبار ہوگا، اور فتاویٰ محمودیہ میں پڑھا ہے کہ" ایک شخص نے صدقہ فطر ادا کیا رمضان میں اور عید تک صدقہ فطر کی قیمت بڑھ گئی تو وہ زائد رقم مزید ادا کرےگا".
اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ جب صدقہ فطر واجب ہوتا ہے (عید الفطر) اس دن کی قیمت کا اعتبار ہے تو پھر گزشتہ سالوں کا صدقہ فطر ادا کرتے وقت پچھلے سالوں کی قیمت کا اعتبار کیوں نہیں کر رہے اور آج کی قیمت کا اعتبار کیوں کر رہے ہیں؟
جواب: گزشتہ تین سال کا فطرانہ جس دن ادا کرے گا اسی ادائیگی والے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ "فطرانہ" میں اصلاً جنس کا اعتبار ہوتا ہے، قیمت اصل نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کے دن یا تو جنس (مثلاً گندم یا جَو وغیرہ) ہی ادا کردے اور اگر قیمت ادا کرے تو اسی دن کی قیمت کے اعتبار سے ادائیگی کرے۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ "فتاوی محمودیہ" کی عبارت کا تعلق ہے تو یہ عبارت حوالہ سمیت بھیج دیں، تاکہ اس کو دیکھ کر اس مسئلے کی تحقیق کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي: (1/ 115، ط: دار إحياء التراث العربي)
«وإن أخروها عن يوم الفطر لم تسقط وكان عليهم إخراجها " لأن وجه القربة فيها معقول فلا يتقدر وقت الأداء فيها بخلاف الأضحية والله أعلم.»
البحر الرائق: (2/ 238، ط: دار الكتاب الإسلامي)
«وإن أدى قيمتها فعنده تعتبر القيمة يوم الوجوب في الزيادة والنقصان، وعندهما في الفصلين يعتبر يوم الأداء»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی