سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ میں سوئٹزرلینڈ میں رہتی ہوں، وہاں کی نیشنلٹی مجھے چاہیے کیونکہ پاکستان کی آب و ہوا سے میری طبیعت بگڑ رہی تھی، نیز یہاں کے بیکار رسم و رواج کی وجہ سے میں دینِ اسلام سے بھی دور ہونے لگ گئی تھی اور اپنی عبادات بھی نہیں کر پا رہی تھی جس کی وجہ سے میری ذہنی حالت بگڑنے لگ گئی تھی، ہر وقت غصہ یا چڑچڑاپن رہتا تھا۔ مجھے میری ڈاکٹر (سائیکالوجسٹ) نے اچھے ماحول میں تھوڑی سیر و تفریح کے لیے کسی دوسرے ملک جانے کا مشورہ دیا تھا، ورنہ یہاں رہ کر انہوں نے کہا تھا کہ آپ پاگل ہو سکتی ہیں، آپ اس ماحول میں سروائیو نہیں کر پائیں گی۔
اب صورتحال یوں ہے کہ وہاں میرے والد صاحب نے ایک پوش علاقے میں میرے لیے گھر لیا ہے جو کہ محفوظ سوسائٹی میں ہے، لیکن وہ اپنے کاروبار کی وجہ سے میرے ساتھ وہاں نہیں رہ سکتے، اس لیے وہ مجھے وہاں چھوڑ کر پاکستان واپس آ جاتے ہیں۔ میں وہاں اکیلی اپنے گھر میں رہتی ہوں جو کہ سوسائٹی کے اندر ہی ہے اور بہت اچھا علاقہ ہے۔ الحمدللہ! میں پردے کی پابندی بھی کرتی ہوں، وہاں تعلیم حاصل کر رہی ہوں، اور کبھی کبھار عصر کے وقت اپنی گاڑی میں کسی ریسٹورنٹ جا کر کافی پی لیتی ہوں یا کھانا کھا لیتی ہوں، اسی طرح یونیورسٹی بھی اپنی گاڑی سے جاتی ہوں، نامحرم سے تمیز کے دائرے میں رہ کر اختلاط صرف یونیورسٹی میں پروفیسرز سے ہوتا ہے، کیونکہ وہ مرد ہیں،
تو مفتی صاحب! کیا میرا وہاں اکیلے رہنا جائز ہے؟ کیا میرے والد صاحب کا مجھے یوں وہاں چھوڑ کر آ جانا جائز ہے یا یہ حرام ہے؟
جواب: کسی خاتون کا غیر ملک میں محرم کے بغیر اکیلے رہنا شرعاً جائز نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر تعلیم و علاج وغیرہ کی غرض سے بیرون ملک رہنا ہی ہو تو والد، بھائی یا شادی کرکے شوہر کا ساتھ رہنا بنیادی شرط ہے، بغیر محرم اور شوہر کے وہاں اکیلے رہنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر تعلیم یا علاج واقعی ضروری ہو، اور محرم یا شادی کا انتظام ممکن نہ ہو تو اس کا قابلِ قبول حل یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں باپردہ اور محفوظ خواتین کے ہوسٹل میں قیام کیا جائے۔ اس صورت میں بھی یہ شرط رہے گی کہ پردے کی مکمل پابندی کی جائے، ماحول محفوظ ہو، اور وہاں فتنے، گناہ یا ایمان کو نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (3/ 19، رقم الحديث: 1864، ط: دار طوق النجاة)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ مَوْلَى زِيَادٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ ، وَقَدْ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: «أَرْبَعٌ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، أَوْ قَالَ: يُحَدِّثُهُنَّ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي: أَنْ لَا تُسَافِرَ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ لَيْسَ مَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ،... إلى آخر الحديث.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی