سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! اگر کوئی ڈاکٹر کے کہنے پر روزے نہ رکھے، تو وہ کتنی رقم فدیہ ادا کرے اور کس کو ادا کرے؟
نیز کیا اس کو فدیہ دینے کے بعد بھی صحت یاب ہونے پر روزے رکھنے ہوں گے؟
جواب: اگر روزے کی وجہ سے کسی مریض کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کا قوی تر اندیشہ ہو اور ماہر دین دار ڈاکٹر بھی روزہ چھوڑنے کا مشورہ دے، تو ایسی صورت میں مریض کے لیے روزہ چھوڑنے کی گنجائش ہے اور صحت یاب ہونے کے بعد اس کی قضا لازم ہوگی، اگر مرض دائمی ہو اور صحت یابی کی امید نہ ہو، تو ہر روزے کے بدلے میں ایک صدقہ فطر کی مقدار فدیہ (پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کسی مستحق زکوٰۃ کو دینا لازم ہو گا۔
واضح رہے کہ فدیہ دینے کے بعد اگر عمر کے کسی حصہ میں یہ مریض صحت یاب ہو جاتا ہے تو فدیہ دینے کے باوجود اس روزہ کی قضاء کرنی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 184)
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ....الخ
الدر المختار: (422/2)
فصل فی العوارض المبیحہ لعدم الصوم....او مریض خاف الزیادۃ لمرضہ وصحیح خاف المرض.... او مریض خاف الزیادۃ او ابطاء البرء او فساد عضو....الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی